ملکہ کوہسار میں مری پاکستان کے شمال میں ایک خوبصورت سیاحتی اور تاریخی مقام ہے جو سطح سمندر سے ۷۵۰۰ فٹ بلندی پر واقع ہے اور یہ راولپنڈی سے ۳۹ کلومیٹر دور ہے۔۱۸۴۹ء میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں کو کسی سرد مقام کی تلاش ہوئی تو مری کے قریب ایک جگہ منتخب کی گئی اور ۱۸۵۱ء میں وہاں پہلی بیرک تعمیر ہوئی۔۱۹۰۷ء تک مری جانے کے لیے لوگ راولپنڈی سے تانگے لیا کرتے تھے جس میں دو دن صرف ہوتے تھے جب کہ آج کل یہ سفر محض دو گھنٹے کا ہے۔جب ہندوستان کا اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ کو منتقل ہو تو ۱۸۶۰ء میںمری کو پنجاب کا گرمائی دارالحکومت بنایا گیا ،اس دور میں فوجی اور سول برطانوی حکام اور متمول مقامی باشندوں نے یہاں آباد ہونا شروع کیا۔ایک عظیم الشان چرچ بھی شہر کے مرکز کی نشان دہی کرتا ہے جو ۱۸۵۷ء میں تعمیر ہوا تھا،چرچ کے ساتھ شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جو مال روڈ کے نام سے موسوم ہے۔میں دورانِ سیر اس چرچ میں بھی گیا،پادری نے چرچ کی تاریخ سے متعارف کروایا۔کہا جاتا ہے کہ انگریز دور میں مری تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنا مگر زیادہ لاگت کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہو سکا،اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو مری کا سفر انتہائی آسان اور سستا ترین بن سکتا تھا۔مسعود الحسن نے اپنی کتاب ’’مری گائیڈ‘‘میں لکھا کہ مری ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب چراگاہ ہے۔ترک جب فاتح بن کر ہندوستان میں آئے تو ہزارہ اور مری کی پہاڑیاں ان کی اقامت گاہ قرار پائیں۔ایک اور روایت جسے لطیف کاشمیری نے اپنی کتاب ’’خیابانِ مری‘‘مطبوعہ ۱۹۷۱ء میں لکھا کہ مری میں جہاں آج پنڈی پوائنٹ ہے،کبھی اس جگہ ایک بزرگ عورت کی مڑھی ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام پہلے’مڑھی‘ پڑا جو بدلتے بدلتے مری ہو گیا۔ایک اور محقق خواجہ نذیر احمد نے اپنی تصنیف ’’جیسس آن ارتھ اینڈ ہیون‘‘میں یہاں تک قیاس کر دیا ہے کہ وہ بزرگ خاتون کو صدیوں سے یہاں محوِ خواب ہیں وہ حضرت مریم ہیںجو حضرت عیسیٰ کی تلاش میں کشمیر جا رہی تھیں کہ مری کے مقام پر فوت ہو گئیں۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ پانڈو اپنے ایامِ جلاوطنی میں جب کشمیر سے واپس آ رہے تھے تو وہ مری میں بھی ٹھہرے تھے،وہ جہاں ٹھہرے تھے وہ جگہ ’پنج پانڈو‘ کے نام سے کشمیر پوائنٹ کی پہاڑی پر آج بھی واقع ہے۔یہاں تقسیم سے پہلے سالانہ میلہ بھی اکتوبر میں لگتا تھا جس میں ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔مری میں تقسیم سے پہلے دو گردوارے،دو مندر اور چار چرچ بھی ہوا کرتے تھے،اس سے بہت پہلے یہ علاقہ جوگیوں کا مسکن رہا ۔ایک روایت کے مطابق پتریاٹہ کے قریب قدیم زمانے کی تراشیدہ چٹانیں اب بھی موجود ہیں جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ بدھ مت کے عروج کے دور کی ہیں ۔سانجھا کس کے مقام پر ایسی ہی ایک چٹان کو لوگ ’رام دیو کی چٹان‘کہتے ہیں۔ مری جانے کا تجربہ اس لیے بھی یادگار ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف ایک پرفضا سیاحتی مقام ہے بلکہ جگہ جگہ ہمیں تاریخی پوائنٹ بھی نظر آتے ہیں،مری کی سیاحت اور ثقافت،دونوں منفرد ہیں۔مری کے بارے میں مشہور ہے کہ مری کے لوگ بے رحم ہیں،مری کی سردی اور سرد مہری،دونوں ناقابلِ برداشت ہیں،دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کا پہلا واسطہ مقامی ٹرانسپورٹرز سے پڑتا ہے،ان کے بھائو کی وجہ سے لوگ اپنی گاڑیوں پر سفر زیادہ آسان سمجھتے ہیں،ذاتی ٹرانسپورٹ پر سفر اگرچہ مہنگا اور مشکل ہے مگرمقامی ٹیکسی ڈرائیورز کے من مانے کرایوں کی وجہ سے سیاح ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔پنجاب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ نے اگرچہ یہاں بہت ساری سہولیات فراہم کر دی ہیں مگر ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ ہم ایک عرصے سے سن رہے ہیں کہ ریلوے خسارے میں ہے مگر میں نے جب جب ریلوے کا سفر کیا،بکنگ کے علاوہ اوپن ٹکٹ لینے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہوتی ہے،ٹکٹ دونوں کا برابر ہے،آپ بکنگ کروائیں یا پھر اوپن ٹکٹ لیں،آپ کو ٹکٹ کی پوری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ مری آتے جاتے میں نے ریل کار پر سفر کیا،ریل میں موجود لوگوں سے مکالمہ کیا،ریلوے کی طرف سے دی جانے والی سہولیات اپنی جگہ مگر اسٹیشن پر لگنے والے ڈھابوں پر چیزوں کے ریٹس، مارکیٹ سے دگنے ہیں،پلیٹ فارم پر بنائے گئے پبلک واش رومز اورانتظار گاہیں ،مسافروں کو ریلوے سے متنفر کرنے کے لیے کافی ہیں،پلیٹ فارم پر موجود عملہ جیب کتروں سے اپنے مسافروں کو بچانے میں بھی ناکام ہے۔راولپنڈی اسٹیشن پر اترے تو پہلا واسطہ ٹیکسی ڈرائیورز سے پڑا،جیسے لاہور میں چنگچیوں اور رکشہ ڈرائیورز کو آج تک ہم ’’قومی دھارے ‘‘میں شامل نہیں کر سکے،ایسے ہی ٹیکسی ڈرائیورز کا بھی حال ہے، جیسے ملک بھر کے مقامی ٹرانسپورٹرزاپنی ہٹ دھرمی میں مشہور ہیں،ایسے ہی رکشوں،چنگچیوں اور ٹیکسی ڈرائیورز کی من مانی کے آگے بھی سرنڈر کرنا مجبوری بن چکا ہے۔اگر ہماری سرکار ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کو پابند کرے کہ کرایہ کلومیٹر کے حساب سے وصول کریںتومیرے خیال سے بہت حد تک بہتری آ سکتی ہے۔مسافروں کو بھی علم ہوگا اور ڈرائیورز کو بھی کہ جتنے کلومیٹر سفر ہوگا،اتنا ہی کرایہ دینا ہوگا۔ورنہ ضلعی حکومت کے شور کے باوجود مقامی ٹرانسپورٹرز اپنی ضد سے باز نہیں آ رہے،یہ صورت حال مری میں بھی ویسی ہی تھی جیسے لاہور یا دیگر شہروں میں ہے۔ٹیکسی ڈرائیورز سیاحوں سے کرایہ طے کرتے وقت ایک مرتبہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ ہمارے مہمان ہیں اور انہی کی وجہ سے ہماری روزی روٹی لگی ہے۔بہرحال میں اٹھائیس دسمبر سے اکتیس دسمبر تک مری رہا،ان تین دنوں میں مری کی ثقافت،مری کے لوگوں اور سیاحوں سے ملاقات کا تجربہ انتہائی منفرد رہا،پنجاب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کی سہولیات سے بھی مستفید ہوئے مگر میرے خیال سے بہت سا کام باقی ہے۔