اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے وفاقی دارالحکومت میں نئے سیکٹرز کی تعمیر سے متاثر ہونے والے شہریوں کو معاوضوں کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس میں برہمی کااظہارکرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہر سطح پر مفادات کا ٹکرائو سامنے آ جاتا ہے ، ریاست کو تو شہریوں کی حفاظت کرنی چائیے تھی، مسئلہ یہ ہے ریاست عام شہری کا تحفظ نہیں کر رہی صرف ایلیٹ کلاس کی خدمت کر رہی ہے ،شہریوں کی انصاف تک رسائی کی راہ میں ہر جگہ رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں،شہری انصاف لینے نکلیں تو تکنیکی رکاوٹوں میں الجھ کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ حکام ان شہریوں کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھیں جنہیں اپنی زمینوں سے نکال کر بے گھر کر دیا گیا ،خود سوچیں آپ کے گاوں کی پوری زمین حکومت زبردستی لے اور آپ کو ڈی سی ریٹ پر ادائیگی کر دے ،کسی کی زمین سرکاری تحویل میں لینے کے لئے بین الاقوامی اصول موجود ہیں،یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے جن کی زمینیں لی گئیں وہ متاثرین ہمارے لئے اہم ہیں ،آئینی عدالت نے عوامی حقوق کا تحفظ کرنا ہے ، شہریوں کے بنیادی حقوق یقینی بنانا ہوں گے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پچاس سال سے جس بیوہ کو اپنی ہی زمین کے بدلے پلاٹ نہیں مل رہا اسے کیا جواز بتائیں ؟ ۔ عدالت نے کہاکہ اسلام آباد کے 1400 سکوئر میل علاقے میں قانون کی کوئی عملداری موجود نہیں،جہاں انصاف لینا مہنگا ہوجائے اس کا مطلب ہوتا ہے شہریوں کی عدالتوں تک رسائی ختم کر دی گئی ہے ، عدالت نے سماعت2دسمبر تک ملتوی کردی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے عثمان ناصر کی بطور ایم ڈی پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ تعیناتی کے خلاف درخواست پرفریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔پاکستان پاورٹی الیوی ایشن فنڈ کے چیئرمین قاضی عظمت عیسیٰ کی تعیناتی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردی گئی۔شہری احتشام الحق کی طرف سے دائر درخواست میں قاضی عظمت عیسی ٰکے علاوہ وفاق اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی کہ عدالت قاضی عظمت عیسیٰ کی تقرری کو غیر قانونی قرار دے اورنیب کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دے ۔