سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے۔اب سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بنچ معاملے کی سماعت کھلی عدالت میں کرے گا۔ترجمان سپریم کورٹ کے مطابق کابینہ نے کمیشن تشکیل دینے اور ٹی او آر کی منظوری دی تاہم جسٹس تصدق جیلانی کی معذرت ، ادارے کی سطح پر معاملہ طے کرنے کے مشورے اور بعض دیگر وجوہات کے باعث چیف جسٹس نے معاملہ تین رکنی کمیٹی کے سامنے رکھا جس نے از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط عدلیہ اور انتظامیہ کے لئے ایک امتحان ہے ۔اداروں اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار سمیت کئی معاملات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے اپنے خط میں عدالتی امور انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے براہ راست مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے، جنھیں موجودہ سیاسی تناظر میں غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا، وزیر اعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیکی اس ضمن میں سپریم کورٹ میں ملاقات ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ کسی ریٹائرڈ عدالتی شخصیت کی سربراہی میں یک رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے جس کے ٹرمز آف ریفرنس کابینہ طے کرے۔سپریم کورٹ کی جانب سے سماعت کے فیصلے کے بعد بعض حلقے سیاسی سنسنی کا اظہار کر رہے ہیں جس سے معاملہ کو دیکھنے کا زاویہ غلط ہو سکتا ہے۔یہ ایک خالص قانونی اور انتظامی معاملہ ہے جس کا پورے سیاق و سباق کے ساتھ تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چھ ججز کی طرف سے لکھے جانے والے خط پر سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ بنا دیا ہے۔یہ ایک پیشرفت ہے۔لیکن انکوائری کمیشن والا فیصلہ کیوں برقرار نہ رکھا جا سکا۔بعض حلقوں کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی طرف سے رضا مندی کے بعد ایک رکنی کمیشن بنانے کے صرف دو دن کے بعد سپریم کورٹ کا سات رکنی بنچ بنایا دِیا گیا ۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی پر مشتمل یک رکنی کمیشن کی تعیناتی کے فوری بعد سپریم کورٹ نے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی تھی اور وضاحت سے بیان دیا کہ اس معاملے کے اندر کن کن ٹرمز آف ریفرنس کو شامل کیا جائے گا اور کن کن معاملات پر جسٹس تصدق جیلانی والا کمیشن اپنی انکوائری کرے گا اور ثبوتوں کی روشنی میں حقائق کو سامنے لے کر آئے گا۔ وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کی ملاقات کے بعد تمام حلقے یہ سمجھ رہے تھے کہ چھ ججز کی جانب سے حساس ادارے پر سنگین الزامات لگائے جانے کے بعد یہ معاملہ اب اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا کیونکہ کمیشن کے ٹی او آرز میں، جو کہ حکومت پاکستان نے جاری کیے، ان میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور چھ ججز جنہوں نے یہ الزامات لگائے ہیں ان کو الزامات ثابت کرنے کے لئے ثبوت پیش کرنا پڑیں گے۔بعض حلقوں کی رائے ہے کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی طرف سے سات رکنی لارجر بنچ کے بنائے جانے کے اعلان کے بعد اب چونکہ ایک لارجر بینچ سپریم کورٹ کا بنا دیا گیا ہے جہاں پر عمومی بات چیت کی جائیگی اور یہ خدشہ ہے کہ لارجر بنچ کی سماعت میں اس خط میں لگائے گئے وہ مخصوص الزامات جو کہ ان چھ ججز نے لگائے ہیں ان کی کوئی خاطرخواہ تفتیش نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ان ججز کو ثبوت دینے کے لیے مجبور کیا جائے گا اس لئے معاملہ انٹیلی جنس اداروں کے خلاف پہلے سے موجود پروپیگنڈہ کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ ججز کا شکایتی خط ایک سادہ معاملہ نہیں۔ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اس نوع کے معاملات کو ہمیشہ اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھا اس لئے برسر اقتدار جماعت کے لئے ہر بار یہ معاملہ باقی حلقوں سے الگ دکھائی دیتا ہے۔پاکستان مین تقسیم اختیارات کا تعین موجودہ آئین میں کر دیا گیا ہے۔سیاسی قیادت چاہے تو اپنے ماتحت اداروں کی ذمہ داریاں طے کر سکتی ہے لیکن پہلے اسے خود اپنا طرز عمل جمہوری سوچ سے ہم آہنگ بنانا پڑے گا۔جہاں تک ججز کی شکایات کی بات ہے تو یہ صرف انٹیلی جنس اداروں سے متعلق نہیں، عدلیہ کے اندر ماضی میں اختلافات رہے ہیں، وکلا تنظیموں کا کردار ہے، مقدمات کے فیصلے تاخیر سے ہونا، ججز پر الزامات اور مقدمات کو ڈھیر کم کرنے کی کوششوں کا ناکام رہنا۔ناگفتنی داستانیں بھی کم نہیں لیکن ہمیشہ سر اٹھانے والے کسی ایک معاملے کو ادھورے طریقہ کار سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔اس سے مسائل کا انبار تو بڑھا ہی ساتھ میں شکایات اور ساکھ کے مسائل بھی دو چند ہوئے۔انتظامی اصول ہے کہ کارکردگی کو سست کرنا ہو تو ساکھ کا نقصان کردو ۔درپیش معاملہ اس لھاظ سے بہت سنجیدہ ہے کہ اس میں وطن عزیز کے دو اہم اداروں کی ساکھ زیر بحث رہے گی ، کھلی عدالت میں سوال ہوں گے، شائد ایسی باتیں بھی سننے کو ملیں جو معمول کی بحث کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ لارجر بنچ بہتر ہے یا پھر یک رکنی انکوائری کمیشن کا انتخاب کیا جانا چاہیئے تھا ،اس کا انحصار اب سپریم کورٹ پر ہے۔اسی سے ممکن ہے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی رائے ابھرے جہاں ایسی شکایات کی سماعت مخصوص کمیٹیوں میں کی جاسکے۔