مولانا شبلی نعمانی روم ، مصر و شام کے سفر نامے میں مسٹر آرنلڈ کا ذکر کرتے ہیں جو مدرسہ العلوم میں فلاسفی کے پروفیسر تھے۔ مصر اور روم کا سفر انہوں نے پروفیسر آرنلڈ کی معیت میں کیا۔ مولانا شبلی نعمانی ان کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ مسٹر آرنلڈ سے میں نے فرنچ زبان سیکھی۔طویل سمندری سفر کے دوران وقت گزاری کے لیے مسٹر آرنلڈ نے عربی سیکھنا شروع کر دی تھی۔کہا جاتا ہے کہ آپ جتنی زبانیں سمجھتے ہیں آپ کے بدن میں اتنی روحیں موجود ہیں۔ زبان صرف حرف اور لفظ کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ ہر زبان اپنے ساتھ تہذیب اور ثقافت کا پورا ایک جہان سمیٹے ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف زبانوں کے ساتھ ساتھ ایک ہی زبان کے مختلف لہجوں کا بھی حیران کن تنوع موجود ہے۔ لہجے کا تنوع جسے انگریزی میں Dialect کہتے ہیں. میں نے ایک طرح سے diversity multilingual کی فضا میں زندگی گزاری ہے .پیاری امی جان گوجرانوالہ شہر سے تھیں اور وہ گوجرنوالیہ لہجے کی پنجابی بولتی تھیں۔ان کی عام بول چال میں پنجابی کے محاورے گندھے ہوتے۔اردو بولتے ہوئے انہیں آسانی محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ کہا کرتیں: میری زبان تھڑک جاتی ہے۔ اگرچہ روزمرہ کی روٹین میں ان کا اردو مطالعہ بہت تھا، اخبارات اور ناول پڑھتی تھیں۔ اخبار کے کالموں کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی تھیں۔ کئی فارسی اشعار روزمرہ کی بول چال میں استعمال کرتیں۔ ابو جان حافظ آباد کے دیہات سے تعلق رکھتے تھے جہاں بالکل مختلف ڈائی لیکٹ کے ساتھ پنجابی زبان بولی جاتی تھی۔ گاؤں میں ان کا کم وقت گزرا ۔ تعلیم کی خاطر وہ ہوسٹلوں میں رہے ۔ ہمارے گھر میں عجیب رواج تھا کہ امی جان کے ساتھ ہم سب بہن بھائی پنجابی بولتے تھے اور ابو جان کے ساتھ ہم اردو بولتے تھے جبکہ آپس میں ہم بہن بھائی زیادہ تر پنجابی بولتے تھے۔ہمارا زیادہ وقت خواجہ فرید کی روہی میں گزرا۔جہاں دیواروں پر تحریر ہوتا تھا اپنی وستی آپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے۔ہمارے آس پاس، دوست احباب ، ہمسائے، ملازمین زیادہ تر سرائیکی زبان بولنے والے تھے۔ مگر ہمیں کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا ۔ ہم نے اپنے گھر میں حافظ آبادی جانگلی زبان اپنے دادا چاچا جی اور بے بے جی کو آپس میں بولتے ہوئے سنا ہے یا پھر جب بھی گاؤں جاتے تو اس زبان کا کانوں میں پڑنا ہی ایک عجیب طرح کا سکون اور اپنے گاؤں کے ساتھ ایک تعلق کا احساس دلاتا۔پھر ہندکو اور پوٹھوہاری بھی بہت بچپن سے ہی ہم سنتے رہے ہیں کیونکہ ہماری خالہ کی شادی پوٹھوہار میں ہوئی تھی تو ٹیکسلا آنا جانا رہتا تھا ۔اب بڑی بہن وہاں بیاہی ہوئی ہیں اس لیے پوٹھوہاری لہجے سے رابطہ برقرار ہے ۔ میری بڑی بھابی مظفرگڑھ کے دستی بلوچ خاندان سے ہیں اور ان کے اپنے خاندان میں بہت سارے پنجابی موجود ہیں۔ پنجابی کے بہت سارے لہجے ہیں۔ گوجرانوالہ کی پنجابی، سرگودھا کی پنجابی، فیصل آباد کی پنجابی ، تھوڑے تھوڑے فرق سے ان کے لہجے مختلف ہیں ۔اسی طرح بہاولپور کی سرائیکی مظفرگڑھ اور ملتان کی سرائیکی سے مختلف ہے، اسی طرح سردار گڑھ اور راجن پور کی وستیوں میں بولی جانے والی سرائیکی زیادہ خالص اور ٹھیٹھ ہے۔ یوں پنجابی ،اردو زبان اور سرائیکی میں پروان چڑھتے چڑھتے میں نے پہلے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا پھر طویل وقفے کے بعد انگریزی لسانیات یعنی Linguistics پڑھنے کیلئے باقاعدہ داخلہ لیا اور اس مضمون کو انتہائی دلچسپ پایا۔زبانیں کیسے زندہ رہتی ہیں، نئے لفظ جذب کرنے کی صلاحیت رکھنے والی زبانیں ہی زندہ رہتی ہیں ۔ کچھ لوگ جو اردو زبان میں انگریزی کے در آنے والے لفظوں کے خلاف رہتے ہیں۔ انہیں اس چیز کو سمجھنا چاہئے کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ یہ زبان کی طاقت اور لچک ہی ہے کہ وہ دوسری زبان کے لفظوں کو اپنے اندر جذب کرتی ہے اور خود کو تروتازہ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انگریزی جو اس وقت دنیا بھر میں رابطے کی زبان ہے اس کی خصوصیت یہی ہے کہ یہ مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ یہاں تک کہ عربی کے الفاظ بھی انگریزی میں موجود ہیں۔ہر سال انگریزی کی ڈکشنری میں نئے الفاظ کا اضافہ اسی طرح ہوتا ہے۔ طالبان بھی اب آکسفورڈ ڈکشنری میں موجود ایک انگریزی لفظ ہے۔ انگریزی زبان کو سیکھنا اور پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔میں زبانوں کے بارے میں تعصب نہیں برت سکتی۔اردو میں لکھتی ہوں لیکن انگریزی زبان کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتی ہوں۔ بہت سا مطالعہ انگریزی زبان میں ہوتا ہے اگر آپ انگریزی زبان نہیں جانتے ہوں گے تو آپ جدید ریسرچ پر مبنی علم سے محروم رہیں گے کیونکہ اس وقت انگریزی میں بہت کچھ ہے جو ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل سکلز سیکھ کر انٹرنیشنل مارکیٹ کے لیے کام کرنے والوں کو اتنی انگریزی زبان تو آنی چاہیے کہ ضروری گفتگو ہوسکے۔ فروری میں مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ 21 فروری کو مادری زبانوں کا دن منانے کا پس منظر کیا ہے۔ اکیس فروری 1952 کو بنگالی زبان کے حق میں احتجاجی جلوس نکالنے والے نوجوان کو شہید کر دیا گیا۔بنگلا دیش میں یہ دن بنگالی زبان کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ 1999 میں بنگلہ دیش کے صدر نے یونیسکو میں تجویز دی کہ 21 فروری کو تمام زبانوں کے احترام کے حوالے سے انٹرنیشنل ڈے منایا جائے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ اپنی ماں بولی ہی کی بات کریں بلکہ اپنے آس پاس بولی جانے والی تمام زبانوں کا احترام کریں۔ زبانوں کے تنوع کی اہمیت کو جانیں اور تسلیم کریں۔ بچوں کو نئی زبان سیکھنے کی طرف راغب کریں۔ بچے کی عمر کے ابتدائی سالوں میں قدرت نے اس کے ذہن کا میکانزم ایک بلاگنگ پیپر کیطرح بنایا ہے کہ اس کے سامنے جتنی زبانیں بولی جائیں گی وہ آسانی سے ان تمام زبانوں کو جذب کر لے گا۔اس لیے نئی زبان سیکھنے کے حوالے سے اپنے دل کو کشادہ رکھیں اور تمام زبانوں کا احترام کریں ۔آخری بات یہ کہ فارسی اور عربی زبان سے نابلد ہونا اب مجھے شدید جہالت کا احساس دلاتا ہے ۔میں ان دونوں عظیم زبانوں کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کی خواہش رکھتی ہوں۔اللہ کرے کہ یہ خواہش ایک مستقل عمل میں ڈھل سکے۔