زراعت کے شعبہ کی اہمیت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے ۔یہ اہمیت اس لئے بھی دوچند ہے کہ یہ شعبہ ہماری قریب قریب ساڑھے چوبیس کروڑ آبادی کی خوراک کے تحفظ کا ضامن ہے۔ پاکستا ن اپنی قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بھی زراعت سے کماتا ہے۔ حالیہ اقتصادی سروے کے اعدادو شمار کے مطابق زراعت کا براہ راست قومی آمدنی میں حصہ 22.9 فیصد ہے اور اگراس میں زرعی صنعتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو شامل کر لیا جائے تو یہ حصہ اس سے کہیں زیادہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں یہ شعبہ ملک میں 37.4فیصد روزگار کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے ۔حکومت نے زراعت کے شعبہ میں شرح نمو 1.55فی صد بتائی ہے ۔ اہم فصلوں کے معاملے میں یہ شرح نمو 3.20 فی صدہے جو کہ گذشتہ ربیع کے موسم میں پڑنے والی شدید خشک سالی اور خریف کے موسم میں آنیوالے شدید قسم کے سیلاب کا براہ راست نتیجہ ہے ۔بہرحال اس مثبت شرح نمو کا بنیادی حصہ میویشی ، جنگلات اور ماہی گیری کے شعبوں سے بتایا گیا ہے جس میں ان کا حصہ بالترتیب 1.44, 3.93، 3.78فی صد ہے۔چنانچہ حالیہ بجٹ میں بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے بہت سے احسن اقدامات اُٹھائے ہیں، اگر ان قدامات کے اطلاق کے دوران چند ایک تجاویز کو بھی مدنظر رکھا جائے ۔تو ان کا براہ راست اثر آئندہ برس کی زرعی ترقی سے محسوس کیا جاسکتاہے۔ سرٹیفائڈ بیج بہترین زرعی پیدوار کے لئے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، ایسے میں ہائبرڈ بیج تو سونے پر سہاگہ ہیں ۔گزشتہ چند برسوں سے ہائبرڈ بیج پوری دنیا کی زرعی پیداوار کے اضافے میں ایک گیم چینجر کا کردار ادا کررہے ہیں اور پاکستاں میں بھی ان کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ حکومت نے اس امر کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے حالیہ بجٹ میں ہائبرڈ اور سرٹیفائیڈ بیج کی درآمد پر ہر طرح کے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کو ختم کر دیا ہے۔مزید برآں sapplingsیعنی کہ پودوں کی درآمد پر بھی ہر طرح کی ڈیوٹی اور ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے۔جس سے یقینی طور پرکسان کی معیاری بیج تک رسائی میں سہولت پیدا ہوگی ۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں صرف 37 فیصدسرٹیفائیڈ بیج دستیاب تھا چنانچہ اس اقدام سے یقینی طور پرمعیاری بیج کی فراہمی میں اضافہ ہو گا۔مگر اس اضافے کو یقینی بنانے اوراس ٹیکس کی رعائت کو ایک بہترین پیداوار میں منتقل کرنے کے لئے چند ایک اقدامات مزید کرنے ہوں گے ۔ ابھی تک بیج کے معاملے میں ہمارا نگرانی کا نظام انتہائی کمزور ہے، جس کی وجہ سے سرٹیفائڈ بیج کے نام پر کسانوں کو غیر معیاری بیج فراہم کئے جاتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا ملک ایک دہائی سے اپنی اوسط پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کر سکا۔چنانچہ نگرانی کے نظام کو مضبوط کیجئے اور بازار میں غیر معیاری بیج بیچنے والوں کو بھاری جرمانوں کے ساتھ ساتھ ایسے کاروبار کو بھی معطل کیا جائے تا کہ معیاری بیج بھی کسان تک پہنچے،اور حکومتی اقدامات کا صحت بخش نتیجہ بھی برآمد ہو سکے ۔ گزشتہ ایک برس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونیوالابے تحاشہ اضافہ بھی کسانو ں کے لئے خاصاپریشان کن تھا،اس مد میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پچاس ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے تیس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں یہ یقیناََ ایک اچھا اقدام ہے جس سے کسانوں کے لئے ڈیزل کے خرچ کی مد میں خاصی بچت ہو گی مزید برآں ملک میں ڈیزل کی مقدار بھی کم درکار ہو گی جس کی و جہ سے ملکی خزانے پر بھی تھوڑا بہت بوجھ کم ہو گا۔ مگراس سارے سلسلے میں یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ پہلے سے ہی پریشان کن حد تک کم ہوتے ہوئے زمینی پانی کے ذخائر پرمنفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ ہمارے زراعت کے شعبہ کے لئے درکار پانی کی مقدار پہلے ہی 30فیصد کم ہو چکی ہے جو کہ اس وقت صرف 72.7ملین ایکڑفٹ ہے ۔ ہمارا کسان پہلے ہی آبپاشی کے جدیدترین طریقوں سے بہت کم جڑاہواہے چنانچہ اس سہولت کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ آبپاشی کے روائیتی طریقوں کا تسلسل پانی کے بلاضرورت ضیاع کا بھی سبب ہو گا اور پانی کے دستیاب وسائل کے استحصال کا بھی۔ اگر شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلز کے ساتھ میٹر یا میٹرنگ ڈیوائس بھی منسلک کر دی جائے۔جسکی براہ راست آنلائن نگرانی بھی ممکن ہو،تو پانی کے منصفانہ استعمال کو کسی حد تک ممکن بنایا جا سکتاہے ۔ ہماری زرعی معیشت کی تمام تر نمو مقامی زرعی صنعتوں کے فروغ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اس ضمن میں بھی مزید سہولت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور زرعی صنعتوں کے لئے رعائتی قرضہ جات کی مد میں 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جس سے یقینی طور پر نئی زرعی صنعتوں کے قیام کی حوصلہ افزائی ہو گی مگر یہ بجٹ بہت کم ہے اس میں خاطرخواہ اضافہ کیا جانا چاہیئے ۔مزید برآں زرعی شعبہ میں فوڈپراسیسنگ کا شعبہ ایسا ہے جو ہمیشہ سے ہی نظرانداز چلا آرہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ زرعی اجناس کی قدرمیں اضافے (Value Addition)کے بارے میں ہمارے کسان کی معلومات بھی انتہائی محدود ہیں، دوسرے اس ضمن میں سہولیا ت بھی ناکافی تھیں، جس کے نتیجے میں ہماری ایسی فصلیں، خصوصاََ سبزیاں اور پھل جن کی عمر نہائیت کم ہوتی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔اس بار اس شعبہ کو خصوصی طور پر توجہ دی گئی ہے تاکہ اس میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے لئے کشش پیداکی جاسکے۔ اسی لئے موجودہ بجٹ میں ایسے تمام تر پراسیسنگ یونٹس جن کی کمائی کا تخمینہ اسی کروڑ کے لگ بھگ ہو گا، اسے پانچ سال کیلئے ہر طرح کے ٹیکس سے چھوٹ دی جارہی ہے جویقینی طور پر ایک بڑی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں پہلی تجویز تو یہ ہے کہ قرضوں کا حصول ان یونٹس کے قیام میںمد نظر رکھے جانے والے عالمی معیارات کے تقاضوں کے ساتھ مشروط کر دیا جائے۔دوسرے زرعی اجناس کی قدر میں اضافے اور پراسیسنگ کے جدید ترین طریق کار کے بارے میں عالمی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگاہی مہمات بھی چلائی جائیں اورتربیت بھی کی جائے تاکہ ناصرف ہم اپنی خوراک کو محفوظ بنا سکیں بلکہ اس سے ملکی برآمدات میں اضافہ کا سبب بھی بن سکیں ۔