1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو کی سربراہی میں سول حکومت قائم ہوئی تو ادارے کی طرف سے تمام رپورٹرز کو ہدایت کی گئی کہ وہ لاہور آنے والے وفاقی وزرائ‘ دیگر صوبوں کے گورنروں ‘وزراء اعلیٰ کے انٹرویوز دیگر اخبارات سے پہلے فائل کر کے فرض شناسی کا ثبوت دیں‘ ان دنوں میں بھی رپورٹنگ کے شعبے سے وابستہ تھا اور وفاقی وزراء میری بیٹ کا حصہ تھے۔پتہ چلا کہ نئے وفاقی وزیر اطلاعات لاہور میں ہیں اور ابھی تک کسی صحافی سے نہیں ملے‘ میں نے رکشہ پکڑا اور ظفر علی روڈ پر واقع حامد ناصر چٹھہ کی قیام گاہ پر جا دھمکا‘ اس زمانے میں حکومتی ارکان کو پروٹوکول کا وہ موذی مرض لاحق ہوا تھا‘ آج کل کے وزیر مشیر جس میں بُری طرح مبتلاہیں نہ سکیورٹی کے مسائل تھے اور نہ اس وقت کے جاگیردار‘ وڈیرے اور متمول سیاستدانوں کے ذاتی ملازمین اتنے بدمزاج‘ بدتمیز اور مردم بیزار ہوتے تھے‘ جن سے آج کل کے صحافیوں کو واسطہ پڑتا ہے۔ حامد ناصر چٹھہ خود مجلسی انسان نہیں لیکن جاگیردارانہ رکھ رکھائو اور تہذیبی مروت و وضعداری میں بے مثال ہیں‘ میں نے ملازم کے ہاتھ تعارفی کارڈ اندر بھجوایا تو فوراً ڈرائنگ روم میں بلا لیا اور آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے انٹرویو کی درخواست کی تو ٹالنے کی کوشش کی‘ میں نے ادارے کی طرف سے تفویض ذمہ داری کا ذکر کیا اور وزیر اطلاعات کے طور پر انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا تو مان گئے‘ محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی تقریر میں کہا تھا ’’ انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے کہہ دیا ہے کہ مارشل لاء مزید جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ پارلیمنٹ اور مارشل لاء ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘ ‘میرا پہلا سوال اس حوالے سے تھا‘ چٹھہ صاحب نے اپنی کھلی ڈلی شخصیت کے عین مطابق صاف گوئی سے بات کی اور مارشل لاء کی قباحتیں گنوانا شروع کر دیں‘ میں نے موقع مناسب جان کر سوال کیا اب جبکہ جمہوریت بحال ہو گئی ہے‘ سول حکومت نے اقتدار سنبھال لیا ہے‘ صوبوں میں منتخب وزراء اعلیٰ کام کر رہے ہیں‘ صوبوں میں فوجی گورنر برقرار رہنے چاہئیں‘‘؟ ’’ہرگز نہیں ! فوجی گورنروں کو رخصت ہو جانا چاہئے‘ ان کی موجودگی میں وزراء اعلیٰ کھل کر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتے‘‘حامد ناصر چٹھہ نے روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے دو ٹوک جواب دیا۔انٹرویو مکمل ہوا‘ میں نے دفتر آ کر اپنے نوٹس کی مدد سے انٹرویو قلمبند کیا اور نیوز روم میں اطہر مسعود مرحوم کے حوالے کر دیا‘ جو اس وقت ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے‘ ڈاک سے لوکل تک یہ انٹرویو اخبار کی شہ سرخی بنا‘ صبح سویرے اپنی خبر کو اخبار میں شہ سرخی کے طور پر پڑھ کر فطری خوشی ہوئی‘ ساتھیوں سے داد سمیٹنے کی خواہش میں مبتلا دفتر پہنچا تو استقبالیہ پر بتایا گیا کہ میری ڈھنڈیا پڑی ہے‘ ریواز گارڈن کے فلیٹس میں قیام تھا اور ٹیلی فون کنکشن ان دنوں جوئے شیر لانے کے مترادف ۔ لہٰذا رابطہ نہ ہونے کے باعث میرا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ رپورٹرز میٹنگ سے قبل ہی اطہر مسعود صاحب نے ایک طرف لے جا کر بتایا کہ صبح سے حامد ناصر چٹھہ مدیر محترم کو کئی بار فون کر چکے ہیں کہ میں نے فوجی گورنروں کے خلاف کوئی بات نہیں کی‘ گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان برہم ہیں اور خبر کی تردید پر مُصر‘ میںنے اطہر مسعود سے کہا کہ انٹرویو میں چٹھہ صاحب نے جو کہا میں نے رپورٹ کر دیا‘ نوٹس میرے پاس موجود ہیں لفظوں کا ہیر پھیر تک نہیں ہوا‘‘ مارشل لاء کا زمانہ‘ غلام جیلانی خان جیسا دبنگ فوجی گورنر جسے جنرل ضیاء الحق کی ناک کا بال سمجھا جاتا تھا اور وزیر اطلاعات کے انٹرویو کی تردید‘ اخبار کے رپورٹر کی نوکری اور صحافتی ساکھ دونوں خطرے کی زد میں‘ میں نے اطہر مسعود سے مہلت طلب کی ‘ رکشہ پکڑا اور چنبہ ہائوس پہنچ گیا جہاں وزیر اطلاعات ملاقاتوں میں مصروف تھے‘ تھوڑی ہی دیر میں مجھے چٹھہ صاحب نے بلا لیا اور چھوٹتے ہی کہا ’’تم نے مجھے مروا دیا‘‘ گورنر جیلانی سخت برہم ہیں اور میری جنرل ضیاء الحق سے شکایت لگانے کے درپے کہ آپ نے کیسا غیر ذمہ دار شخص وزیر اطلاعات لگا دیا ہے‘ اپنے نوٹس آگے رکھ دیے اور پوچھا چٹھہ صاحب! کیا آپ نے یہ بات کہی تھی یا نہیں؟وزیر اطلاعات نے لگی لپٹی رکھے بغیر تسلیم کیا کہ انہوں نے یہ بات کہی تھی اور اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ مگر انہیں اعتراض یہ تھا کہ اس بات کو شہ سرخی کیوں بنایا گیا ؟میرے سارے انٹرویو کا لب لباب تو یہ نہ تھا۔گورنر جیلانی سوچ رہے ہیں کہ میں نے انہیں Embarrassکرنے کے لئے یہ بات کہی اور اخبار میں شہ سرخی لگوائی‘ میں نے انہیں بتایا کہ شہ سرخی رپورٹر کی مرضی سے لگتی ہے نہ میں نے آپ کے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر رپورٹ کیا‘ آپ کی تردید سے میری نوکری خطرے میں ہے لہٰذا آپ مدیر محترم کو فون کر کے بتائیں کہ مجھے اعتراض رپورٹر کی خبر پر نہیں‘ فوجی گورنروں والے حصے کو شہ سرخی بنانے پر ہے۔چٹھہ صاحب نے اتفاق کیا اور میرے سامنے فون کر کے مدیر محترم کو بتایا کہ قصور رپورٹر کا نہیں نیوز روم کا ہے‘ جس نے میرے ایک بے ضرر جملے کو شہ سرخی بنا کر مصیبت میں ڈال دیا۔ یہ سارا واقعہ مجھے پیمرا ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد میڈیا پر جاری بحث سے یاد آیا اور میں کئی دن سے سوچ رہا ہوں کہ اگر ان دنوں پیکا ایکٹ اور پیمرا ترمیمی ایکٹ نافذ العمل ہوتا ‘ وزیر اطلاعات انٹرویو کی تردید کر دیتے اور مارشل لائی اختیارات سے لیس حکومت کارروائی پر تل جاتی تو غریب رپورٹر ’’ڈس انفرمیشن‘‘ کا مجرم قرار پاتا یا ’’ مس انفرمیشن ‘‘کا مرتکب؟ ایسا ہی ایک واقعہ سدا بہار پارلیمنٹرین رانا پھول خان مرحوم کے انٹرویو کا بھی ہے‘ رانا صاحب ساٹھ‘ ستر‘ اسّی‘ نوے کی دہائی میں پہلے مغربی پاکستان اور پھر پنجاب اسمبلی کے رکن رہے اور اپنی صاف گوئی‘ چٹکلے بازی کے سبب مشہور تھے۔رپورٹرز میٹنگ میں ضیاء شاہد مرحوم نے جو ان دنوں ایڈیٹر رپورٹنگ ڈیسک تھے ڈیوٹی لگائی کہ رانا پھول خان کا انٹرویو کر کے لائیں ‘یہ ایک مشکل بلکہ ناممکن ٹاسک تھا کیونکہ رانا صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی رپورٹر کو انٹرویو نہیں دیتے‘ ذاتی سواری سے محروم رپورٹر ویگنیں بدل کر پنجاب سول سیکرٹریٹ کے عقب میں واقعہ پیپلز ہائوس پہنچا‘ جو ان دنوں ارکان اسمبلی کا واحد ہاسٹل تھا‘ رانا صاحب سے ان دنوں کی یاد اللہ تھی‘ جب وہ جنرل جیلانی کی صوبائی کونسل کے رکن تھے ‘رانا صاحب نے چائے کا آرڈر دیا اور حسب روایت حال احوال پوچھنے کے بعد سیاسی صورتحال پر تبصرہ شروع کردیا‘ انہیں یہ جتلائے بغیر کہ میں ان کا انٹرویو کرنے آیا ہوں سوال جواب شروع کر دیے اور وہ لگی لپٹی رکھے بغیر بولتے چلے گئے‘ میرا ایک سوال یہ تھا کہ آپ برسوں سے اس ایوان کے فعال رکن ہیں ‘موجودہ اسمبلی کی کارکردگی اور بحث کا معیار سابقہ اسمبلیوں سے کس قدر بہتر ہے؟۔رانا صاحب بے حد جلال میں آ گئے بولے ‘ارے چھوڑو‘ میرے بھائی پھیرو یونین کونسل کا معیار موجودہ ایوان سے کہیں بہتر ہے‘ سارے ناکارہ اور نالائق لوگ سیاسی جماعتوں کے انتخابی بائیکاٹ کے باعث یہاں اکٹھے ہو گئے ہیں‘ اوپر سے قائد ایوان ماشاء اللہ ‘ گونگے پہلوان۔ (جاری ہے)