نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرِ صدارت ایس آئی ایف سی ایپکس کمیٹی کا 9واں اجلاس جمعہ کو اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، نگران وفاقی کابینہ کے ارکان، صوبائی وزراء اعلیٰ اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایف آئی ایف سی )کی ایپکس کمیٹی نے ملک میں نہری نظام کی بہتری کیلئے اسٹریٹجک کینالز ویژن 2030 ء اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)میں اصلاحات پلان کی منظوری دیدی جبکہ آرمی چیف نے پاک فوج کی جانب سے ملک میں معاشی استحکام اور لوگوں کی معاشی و سماجی بہتری کیلئے حکومتی اقدامات کا بھرپور ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کا رجحان پہلے ہی بہت کم ہے ،اس کی بڑی وجہ سرمایہ کاروں کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہیں ۔ گزشتہ برس انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے خواہشمند چند سرمایہ کاروں نے ملک کی اعلی ترین شخصیت کو خط لکھا ہے اور ان کی توجہ اس امر کی جانب دلوائی تھی کہ سولر اور ونڈ پاور پلانٹ کے 13 منصوبے بیورو کریسی کی روایتی سست روی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں، سرمایہ کاروں نے خط میں کہا تھا کہ بیوروکریسی کی رکاوٹ کے باعث 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے، منصوبوں سے 600 میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ایس آئی ایف سی کے تحت منصوبوں کی منظوری دی جائے، ایس آئی ایف سی سے بیوروکریسی کے عمل دخل کو ختم کیا جائے۔ جس کے بعد اعلیٰ شخصیت نے وزیر اعظم پاکستان سے سرمایہ کاروں کے تحفظات دور کرنے کا کہا تھا۔اس کے بعد وزیر اعظم نے بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے گزشتہ برس جون میں ایس آئی ایف سی قائم کی تھی۔ اور سپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل میں ایک (ایپیکس) کمیٹی بنائی گئی ہے ،جس میں وزیر اعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ اور چیف آف آرمی اسٹاف شامل ہیں۔اس کے علاوہ کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی میں وفاقی اورصوبائی کابینہ کے اراکین، بیوروکریسی کے بعض سینئر افسران اور فوج کا نمائندہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایس آئی ایف سی کی تیسری کمیٹی عمل درآمد کمیٹی کہلاتی ہے جس میں وزیر اعظم کے خصوصی معاون اور فوج کا افسر موجود ہے۔جس کے بعد کسی بھی قسم کے فائل ورک میں الجھنے کی بجائے بیرو نی سرمایہ کاروں کو سہولت دیکر سرمایہ کاری پر قائل کیا جاتا ہے ۔ اس کونسل کے اغراض و مقاصد میں بعض شناخت شدہ شعبوں میں دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا بتایا گیا ہے جن میں دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔اس مقصد کے لیے کونسل ’’سنگل ونڈو‘‘ پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گی تاکہ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے ملک میں کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کی جاسکے۔فوج کی جانب سیاس مقصد کے لیے ہر قسم کے تعاون کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔ایس آئی ایف سی کے قیام کا بنیادی مقصد بیرونی سرمایہ کاری کو سہولت فراہم کرنا ہے لیکن یہ کئی وجوہات کی بنا پر فی الحال کافی کم ہے۔ایس آئی ایف سی درحقیقت بورڈ آف انویسٹمنٹ کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ بورڈ اس سے قبل پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور اس کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور ملک میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی نہ لائی جاسکی تھی۔ دراصل پاکستان کی بیوروکریسی فائل ورک میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ایسا الجھاتی ہے کہ سرمایہ کار انویسٹمنٹ کی بجائے یہاں سے بوریا بستر لپیٹنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حکومتی ضابطے، نوکر شاہی کی رکاوٹیں اور ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہونے اور حکومتوں کی نااہلیوں کے باعث اس وقت ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔اگر دیکھا جائے تو برآمد کنندگان کو سامان باہر بھیجنے کے لیے تقریباً 13 ایجنسیوں سے نمٹنا پڑتا ہے، جب کہ درآمد کنندگان کو سامان منگوانے کے لیے لگ بھگ 60 ایجنسیوں کو دستاویزات جمع کرانی پڑتی ہیں۔بیرونی سرمایہ کار جب یہ دیکھتا ہے کہ اس قدر فائل ورک کرنا پڑے گا ،اس کے بعد بھی کسی کو رشوت دیکر ہی یہاں کام شروع کرنا ہے تو وہ ان پچیدگیوں میں الجھنے کی بجائے کسی اور ملک میں شفٹ ہوجاتا ہے ۔اس کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں مالی بحران کی شکار پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ،جس کے بعد امید قائم ہوئی ہے کہ پی آئی اے اپنے پائوں پر کھڑ ی ہو سکے گی ۔یہ آخری حربہ ہے اگر اب بھی پی آئی اے اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہوتی تو پھر ا س کی نجکاری کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے ۔گو اس خصوصی کونسل کے مستقبل کے منصوبہ جات بڑے ہی اہم ہیں ۔جن میں چولستان میں 50 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم، کینولا، باجرہ اور کپاس کی کاشت کا پروگرام ہے۔ لائیو اسٹاک کے سیکٹر میں 20 ہزار جانوروں کی استعداد کے کارپوریٹ ڈیری فارم قائم کرنے کا پروگرام ہے ۔ 10 ہزار اونٹوں پر مشتمل کیمل فارم بھی قائم کیا جائے گا۔ ملک میں اسمارٹ فونز کی تیاری کے لیے75 ہزار افراد کو ٹریننگ دینے کا منصوبہ بھی ہے تاکہ اسمارٹ موبائل فونز تیار کرکے انہیں خلیجی ممالک، افریقہ اور وسطی ایشیاء ی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاسکے۔اگر ایس آئی ایف سی اپنے اہداف کو پورا کر لیتی ہے تو یقینی طور پر ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے ۔