والٹیئر کے بغیر انقلابِ فرانس کی تاریخ نامکمل اور ادھوری ہے، بلکہ وہی تو تھا جس نے فرانسیسی اشرافیہ کے بنائے ہوئے مصنوعی تہذیبی تالاب میں پہلا پتھر پھینک کر ارتعاش پیدا کیا تھا۔ فلسفی، شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور تاریخ دان، جو 21 نومبر 1694ء کو پیرس میں پیدا ہوا اور 30 مئی 1778ء کو 83 سال کی عمر میں لندن میں جلاوطنی گزارتے ہوئے مر گیا لیکن اس کی تحریروں خصوصاً ڈراموں کا اس قدر اثر ہوا کہ پورا فرانس بادشاہت کے خلاف ایک شعلۂ جوالہ بن کر اُٹھا اور اس کی موت کے صرف دس سال بعد ہی ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس کا تصور ہی بعد میں آنے والی دنیا کی ہر اشرافیہ کو لرزا کر رکھ دیتا ہے۔ فرانس کی اشرافیہ کے طاقتور اور منہ چڑھے فرد آگسٹے ڈی روہان نے جنوری 1726ء کی کسی شام پیرس کے اس مقبول ترین لکھاری والٹیئر کی تضحیک کرنے کی خاطر اسی کے ڈرامہ تھیٹر میں ایک ہجوم کے روبرو اس سے پوچھا، تمہارا نام کیا ہے؟۔ والٹیئر نے جواب دیا "Voltaire! My name is rising as yours is fading away" والٹیئر کے اس تاریخی جواب کو حبیب جالب نے ایک مصرعے میں یوں قلم بند کیا ہے۔ ’’میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا‘‘ ایک شہزادہ اور وہ بھی کہ جو فوج کا سربراہ ہو، اس کے لئے ایک ڈرامہ نگار کے ہاتھوں ایسی گستاخی ناقابلِ برداشت تھی۔ چند دن بعد جب والٹیئر اپنے ایک دوست ڈیوک دی سلی (Duke de Sully) کے گھر میں کھانا کھا رہا تھا تو فرانس کی اشرافیہ نے ایک منصوبے کے تحت چند کرائے کے غنڈوں کو وہاں بھیجا جو اسے گھر سے باہر کھینچ لائے اور اس پر لاتوں اور گھونسوں کی بوچھاڑ شروع کر دی اور ساتھ گندی اور غلیظ گالیوں سے نوازتے رہے۔ سڑک کے پار فرانسیسی فوج کی خفیہ ایجنسی کا ایک ذمہ دار آفیسر، شاندار قسم کی بگھی میں بیٹھا اس تمام تماشے کی نگرانی کر رہا تھا۔ والٹیئر چاہتا تھا کہ کوئی تو اس ظلم پر آواز اُٹھائے لیکن اسے سخت مایوسی ہوئی جب اس کے دوست ڈیوک ڈی سلی نے بھی، جس کے گھر وہ کھانا کھا رہا تھا، والٹیئر کے ساتھ پولیس کمشنر کے پاس جا کر رپورٹ کروانے سے انکار کر دیا۔ اخبارات میں لکھنے والے اور پیرس کے ادیب سب کے سب اس سانحے پر خاموش رہے، کیونکہ ان میں سے بیشتر حکومت اور اشرافیہ کے پروردہ تھے۔ ایسے تمام صحافی و دانشور اسے والٹیئر کا مکافاتِ عمل لکھتے رہے۔ ان سب کا نمائندہ، شاہی خاندان کا ایک شاعر ادیب شخص پرنس آف کاونٹی (Conti) جو فوج میں لیفٹیننٹ جنرل بھی تھا، اس نے طنزاً لکھا "They were well received but badly given" ’’ٹھکائی اچھی ہوئی ہے لیکن برے طریقے سے کی گئی ہے‘‘۔ والٹیئر اپنا اسلحہ لے کر باہر نکلا تاکہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکے لیکن سرکاری مراعات یافتہ مرنجاں مرنج ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں نے اسے والٹیئر کی ایک اوچھی اور غیر مہذب حرکت سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ لکھنے والوں کی اس خاموشی سے روہان کو بہت حوصلہ ملا اور اس نے بادشاہ لوئی 15سے والٹیئر کی گرفتاری کا حکم نامہ حاصل کر لیا اور اسے 17 اپریل 1726ء کو پیرس کی مشہور ’’بیسٹائل‘‘ جیل میں قید کر دیا گیا۔ دو ہفتے بعد اسے اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ فرانس چھوڑ کر برطانیہ میں آباد ہو جائے گا۔ ایاز امیر خوش قسمت ہے کہ اسے پڑنے والے تھپڑوں کا درد ہر لکھنے والے نے محسوس کیا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی درد اور دُکھ ایسا ہو کہ وہ آپ کو اپنا دُکھ محسوس ہونے لگے۔ جس وقت اس واقعے کی تفصیلات ٹیلی ویژن پر آ رہی تھیں تو ایک ایک لمحہ مجھ پر ایسے بیت رہا تھا جیسے کسی نے ایاز امیر کو نہیں مجھے گاڑی سے نکال کر مارا ہو۔ ایاز امیر سے ہزار اختلاف کئے جا سکتے ہیں لیکن اس کی سچ کے ساتھ وفاداری اور حق گوئی کا احترام نہ کرنے والا شخص دنیا کا متعصب ترین شخص ہو سکتا ہے۔ ایسے متعصب افراد کے لئے فارسی والے ایک محاورہ بولتے ہیں، ’’کورچشم و کور بین و کور ذوق‘‘ یعنی، آنکھ کے اندھے، بینائی بھی ختم اور ذوق سے بھی تہی۔ وقت نے ایاز امیر کو اس ملک کے مسائل سے مکمل آگاہی کے لئے کیسے کیسے ماحول سے گزارا اور کیسی کیسی انگیٹھیوں کی گرمی میں رکھ کر کُندن بنایا۔ ایک رکنِ اسمبلی کے گھر پیدا ہونے والا، اپنے علاقے چکوال کی عمومی روایت کے مطابق فوج میں چلا جاتا ہے، ایک غیر مطمئن افسر، پھر وزارتِ خارجہ میں آ نکلتا ہے، سفارتی آداب کی اُلجھنوں سے بیزار نوکری چھوڑتا ہے تو والد کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا اسمبلی کی راہداریوں میں چلا جاتا ہے، لیکن وہ جو دنیا بدلنا چاہتا ہو، اسے کہیں قرار نہیں آ سکتا۔ سیاست کے عین عالمِ شباب میں اسمبلی کی رکنیت چھوڑی اور قلم سنبھال لیا۔ انگریزی پر دسترس ایسی کہ جس نے لاتعداد لوگوں کو گرویدہ بنا لیا۔ مشرف دَور میں اس کا لکھا ہوا کالم "Too much of a Brass" میں نے شاید درجنوں بار پڑھا ہو گا۔ ایک انتہائی نفیس دل اور تہذیبی زوال کا دَرد رکھنے والاشخص۔ یہ الگ بات ہے کہ ایاز امیر جس تہذیب کے زوال کا نوحہ لکھتا ہے مجھے اس سے اختلاف ہے۔ لیکن ہر شخص کو اپنے اپنے یادِ ماضی (Nostalgia) میں زندہ رہنے اور اسے یاد کر کے آنسو بہانے کا پورا حق حاصل ہے۔ ایاز امیر جیسے لوگ کسی قوم میں تھوڑے ضرور ہوتے ہیں مگر وہ اس قوم کے ضمیر اور حق گوئی کی تصویر ہوتے ہیں۔ ان کی تضحیک سے ان کا چہرہ نہیں بگڑتا بلکہ اس معاشرے کا چہرہ داغ دار ہو جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس وقت مزید رُسوا ہوتا ہے جو ایسے لوگوں کیساتھ اس طرح کے سلوک کو خاموشی سے برداشت کر لیتا ہے۔ مذمتی بیانات اور ہمدردی کے پیغامات دینے والے حکمران جانتے ہیں کہ مجرم کون ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرے تو آج میسر ہوئے ہیں، ان سے پہلے مدتوں پولیس کا مخبری کا نظام فوراً مجرم تک پہنچ جایا کرتا تھا۔ اسی استعداد کی بنیاد پر تو شورش کاشمیری نے لکھا تھا، ’’پنجاب پولیس شکمِ مادر سے بھی مجرم ڈھونڈ نکالتی ہے۔ ایاز امیر کے مجرم شاید کبھی نہ ملیں۔ جس ملک میں دن دہاڑے قتل کرنیوالوں کے خلاف کوئی گواہی نہ دے، وہاں رات کے اندھیرے والے مجرموں کی کون شناخت کریگا۔ لیکن حکمرانوں کی یہ حالت، معاشرے کو انقلابِ فرانس کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ جس روہان نے والٹیئر کو قید اور ملک بدر کروایا تھا، وہ والٹیئر کی تذلیل پر عوام کی مجرمانہ چُپ کی وجہ سے اس قدر شیر ہو گیا تھا کہ ایک دن جب کسی شخص نے اس سے شکایت کی کہ پیرس شہر میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو اس نے تنک کر جواب دیا ’’شہر میں اتنی گھاس ہے، لوگ وہ کیوں نہیں کھاتے‘‘۔ مگر جب بپھرتا، کھولتا ہجوم ایک بڑے چھرے یعنی گیلوٹین تلے گردنیں کاٹ رہا تھا تو ایسے میں اسی روہان کو جب پکڑ کر چبوترے پر لایا گیا تو پہلے اس کے منہ میں گھاس بھری گئی اور پھر اس کی گردن کاٹ دی گئی۔ تاریخ اپنے عظیم کرداروں کی وقتی طور پر تذلیل تو برداشت کر لیتی ہے لیکن ایسے لوگوں کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے اور ظالموں سے مسلسل نفرت کرتی رہتی ہے۔ واقعۂ کربلا کا ایک مظلوم کردار سیدنا امامِ حسینؓ کی بیٹی سکینہ کا ہے جس کے چہرے پر طمانچے مارے گئے تھے۔ مصطفی زیدی نے اس سانحے کو جو استعارہ دیا ہے وہی اصل ہے اور اسی کو دوام ہے۔ جس ہاتھ سے تھپڑ پڑے، وہ ہاتھ اِک کردار تھا عارض سکینہ کا نہ تھا، تاریخ کا رُخسار تھا ایاز امیر کا چہرہ اس ملک کی تاریخ کا روشن چہرہ بن چکا ہے۔ ایسے چہروں کی روشنی میں لوگ ایک دن تذلیل کرنے والے ظالم کا ہاتھ ضرور کاٹ دیتے ہیں۔