12 مئی 1978ایک تاریخ جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔جنرل ضیا کا بد ترین زمانہ آمریت تھا ، ہم بہت سارے سینئر اور جونئیر صحافی ساتھیوں سمیت فیروزپورروڈ والی سنٹرل جیل میں بند تھے، ہمارے ساتھ کئی معروف اور غیر معروف سیاسی قیدی بھی تھے جن کا جیل کے اندر بھی ٹہکہ اورسکہ چلتا تھا۔انہی دوستوں سے ہمیں باہر کی خبریں مل جایا کرتی تھیں، تیرہ مئی کی صبح ہمیں فوجی عدالت میں لے جایا جانے لگاکہ پیپلز پارٹی کے مشتاق اعوان سے پتہ چلا کہ پچھلی رات اس وقت کی پاپولر ایکٹرس شبنم کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی ہے ، ملزموں کی تعداد چھ تھی اور اس گروپ کے لیڈر کا نام تھا فاروق بندیال۔ جو بھانجا تھا ایس کے بندیال حاضر سروس وفاقی سیکرٹری داخلہ کا، اسی شام مجھے سزاسنادی گئی، پہلے کوٹ لکھپت پھرایک ہفتے بعد ساہیوال جیل بھجوا دیا گیا، ایک رات دو بجے مجھے ساہیوال جیل سے نکالا گیایہ جیل قوانین کے انتہائی بر عکس اقدام تھا، سارے قیدی ڈرگئے، خدشہ تھا کہ مجھے مقابلے میں پار نہ کر دیا جائے، آنکھوں پر پٹی باندھ کر قیدیوں والی وین میں سوار کرایا گیا، تین چار گھنٹوں کی مسافت کے بعد میری آنکھوں سے پٹی اتاری گئی تو میں پھر لاہور کی سنٹرل جیل کے اندرتھا( مجھے ساہیوال جیل سے آدھی رات کو کیوں نکالا گیا؟یہ ایک الگ کہانی ہے) سنٹرل جیل میں،سارا کچھ وہی تھا جو میں پہلے دیکھ چکا تھا۔ ہاں البتہ وہاں چھ نئے نوجوان قیدیوں کا اضافہ ضرور ہوا تھا جنہیں ’’فاتحین شبنم،، کے لقب سے پکارا جاتا تھا،بہت دھاک تھی جیل میں ان لڑکوں کی، لگتا تھا ، سپرنٹنڈنٹ سمیت جیل کا سارا عملہ ان کے ماتحت ہے، پیپلز پارٹی کے چند لیڈروں کا جو ٹہکا پہلے دیکھا تھا وہ بھی ختم ہوچکا تھا، ان دنوں لاہورکا سب سے بڑا بدمعاش مانا جانے والا شاہیا پہلوان بھی اسی جیل میں تھا، ان فاتحین شبنم کے سامنے شاہیا کی پہلوانی بھی دم توڑ چکی تھی، اسے جیل کے اندرونی گیٹ کے قریب بوہڑ کے درخت تلے بیٹھنے کی اجازت بھی ان لڑکوں سے لینا پڑتی تھی، میں نے اپنی ہر آنے والی ملاقات پر ان لڑکوں کی طاقت جانچی، وہ لڑکے تو جیلر کی کرسی پر بیٹھ کر عملے کو احکامات صادر کیا کرتے تھے، اس زمانے میں موبائل فونز کا تصور تک نہ تھا،جیلر کے کمرے میں انگریز دورکا کالے رنگ کا بڑا سا ٹیلی فون سیٹ رکھا تھا ،اس فون پر بھی فاتحین شبنم کا قبضہ رہتا،میرے سمیت تمام صحافی قیدیوں سے ان فاتحین کا رویہ بہتر اوردوستانہ تھا، اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں، شاید ایک یہ بھی کہ قیدی صحافی دوسرے قیدیوں کے مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے اورسفید پوش گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، یہ لڑکے جیل میں جہاں سے بھی گزرتے داد و تحسین پاتے،عام کریمنل قیدی انہیں وہ ہیرو تصور کرتے جنہوں نے اس ملک کی ان دو نامور ہیروئنز کو زیر کیا تھا، جن تک ان غریبوں کی رسائی تک ناممکن تھی( ان بگڑے ہوئے رئیس زادوں کی درندگی کا نشانہ شبنم سے کچھ دن پہلے اداکارہ زمرد بنی تھی) اب اس کہانی کا دوسرا مگر غیر مصدقہ رخ ہمیں سورج ڈھلنے پر کوٹھڑیوں میں بند کئے جانے سے پہلے آدھ گھنٹہ واک کی اجازت ملی تو ایک دن فاتحین شبنم سے ملاقات ہوگئی، میں نے ان لڑکوں سے پوچھا، تم لوگوں نے ایک نامور ایکٹرس سے اجتماعی زیادتی کیوں کی؟یہ جرم شبنم کے خاوند رابن گھوش اور کمسن بیٹے روفی کو زنجیروں سے باندھ کر ان کے سامنے کیوں کیا ؟ اجتماعی زیادتی کے بعد اس کے گھر میں لوٹ مار کیوں کی گئی؟اور پھر یہی واردات چند دن پہلے اداکارہ زمرد کے گھر بھی کیوں کی گئی؟ فاروق بندیال اور اس کے ساتھیوں کا دعوی تھا کہ وہ سب شبنم کے گھرایک عرصہ سے جا رہے تھے، ہر شام وہاں جو اہوتا جو اکثر فجر تک جاری رہتا، وہاں زمرد ہی نہیں کئی اداکارائیںاورتاش کی شوقین دیکھیں خواتین جن میں کئی بڑے گریڈ کے بیوروکریٹس کی بیویاں اور کئی معروف مرد بھی جمع ہوتے ہیں، ہمیں وہاں لوٹا گیا،وہاں ایسا سسٹم تھا کہ وہ جسے چاہیں جتوا دیں، جسے چاہیں قلاش کر دیں ،ہم بھی اس گیم کے کھلاڑی ہیں،جب پتہ چلا کہ فکسنگ ہوتی ہے،ہم نے انتقام میںیہ دونوں وارداتیں کیں، فاروق بندیال اور اس کے دوستوں کو اس پر کوئی ملال نہ تھا وہ خوش تھے کہ انہوں نے دو نامور عورتوں کے ساتھ یہ سب کچھ کرکے شہرت پائی۔ ٭٭٭٭٭ اب ایک دوسری کہانی، جو پہلی کہانی کا سیکوئل ہے یہ کہانی شروع تو ہوئی جون دو ہزار دس میں لیکن ختم آج تک نہ ہو سکی۔ وہ اپنے قبیلے کے سردار کا بیٹا ہے، حادثاتی طور پر وزیر اعلی پنجاب بھی بنا، شہباز شریف کی کابینہ کا رکن رہا، آجکل ایک بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک ہے، جی ہاں میں اسی طاقتور کا ذکر کر رہا ہوں، جسے عمران خان نے اپنی پارٹی میں شامل کرنے سے معذرت کرلی، لگتا ہے کہ عمران خان کو فاروق بندیال والے واقعہ نے دو دن میں ہی سیانا کر دیا ہے، پی ٹی آئی کے چیئرمین دو روز پہلے سابق گورنر پنجاب‘ ن لیگ کے باغی،چوٹی کے سیاستدان سردار ذوالفقار کھوسہ کو اپنی پارٹی میں خوش آمدید کہنے ان کے گھر گئے تو ان کے صاحبزادے دوست محمد کھوسہ نے بھی پی ٹی آئی کیلئے اپنی خدمات پیش کردیں، عمران خان نے ان کی مرضی محبت سے مسترد کردی، کیونکہ عمران ان کا سارا کچا چٹھا جیب میں ڈال کر گئے تھے۔ چھوٹے سرکار نے ٹیلی وژن اور پشتو فلموں کی ہیروئن سپنا عرف زیبا کو ایک برتھ ڈے پارٹی میں دیکھا اور فریفتہ ہوگئے، اپنے دائیں بائیں رہنے والے دوستوں کی موجودگی میں اس سے نکاح پڑھوالیا، شاپنگ اور سیر کروانے لندن لے گئے،ڈیرہ غازی خان بھی لیجاتے رہے، مگر اسے رکھا اسی کے والدین کے گھر میں، دوہزار گیارہ میں لاہور کے نجی اسپتال میں بیٹی کی پیدائش ہوئی، اس بچی کو ولدیت بھی دی، پھر نہ جانے کیا ہوا،بیوی سے جی بھر گیا،اس سے میل ملاقات ہی بند کردی، سپنا بیٹی سمیت اپنے ناراض سردار سے ملنے بائیس جون دو ہزار گیارہ کو انکے جوہرٹاؤن والے گھر پہنچ گئی، جہاں اس پر تشدد کیا گیا، بے عزت کیا گیا، مگر وہ واپس جانے سے انکار کرتی رہی، چھوٹے سرکار نے اپنے انہی دوستوں کو جو اس شادی کے گواہ بھی تھے،حکم دیا کہ اسے ڈیرے پر لے جاؤ،‘ اس کے بعد آج تک سپنا اور اس کی بیٹی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا،اس کے پاس دو موبائل تھے جو پھر کبھی آن ہی نہ ہوئے،سول سوسائٹی کے احتجاج پر چھوٹے سرکار کے خلاف اغوا کا پرچہ تو ہوا مگر پولیس نے اس پر یکسر کوئی کارروائی نہ کی، سپنا کی بڑی بہن حنا نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، ہمارے دوست اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے مفت مقدمہ بھی لڑا، لیکن مدعی پارٹی کو کبھی عدالتوں کے اندر جانا بھی نصیب نہ ہوا، سپنا کے اہل خانہ کو ہی نہیں اظہر صدیق کو بھی پیروی پر قتل کی دھمکیاں ملتی رہیں، عدالتوں میں سب مصدقہ ثبوت پیش کر دیے گئے تو چھوٹے کھوسہ کے وکیلوں نے ہر چیز کا اعتراف تو کیا لیکن دلیل یہ دی گئی کہ سردار صاحب سپنا کے غائب ہونے سے ایک سال پہلے طلاق دے چکے تھے، عدالتیں عدم پیروی پر سپنا کی بہنوں کی درخواستیں خارج کرتی رہیں، ایک سیشن جج نے تو سپنا کی شادی کو محض ایک اخباری خبر قرار دیا، سپنا کی بڑی بہن حنا ہائیکورٹ بھی گئی تھی، مگر کچھ حاصل نہ ہوا، سپنا اور اس کی کمسن بیٹی تو ایک طرف پھر سپنا کی فیملی بھی لاپتہ ہوگئی۔۔ عمران خان صاحب آپ نے بہت اچھا کیا کہ چھوٹے کھوسہ کو اپنی پارٹی میں جگہ نہ دی اور آپ نے یہ تو بہت ہی اچھا کیا کہ بڑی سرکار کو اپنے ساتھ بٹھا لیا کیونکہ وہ تو ایک انتہائی شریف النفس اور عوام دوست سیاسی راہنماہیں سارے سردار زندہ باد، سارے وڈیرے زندہ باد