بلوچستان ،سندھ ، پنجاب اور سرائیکی بیلٹ میں قبائلی نظام اپنی پوری بدصورتی کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان بننے کے پچھتر سال کے بعد بھی ان وڈیروں سرداروں چودھریوں اور خانوں کے زیر سایہ رہنے والے بے کس لوگ آج بھی اس ہائی ٹیک ڈیجیٹل دور میں غلام ہیں۔کیوں پاکستان کی قانون ساز اداروں میں ایسی قانون سازی نہیں ہو سکی کہ وہ لوگ جو نسل در نسل ان سرداروں کے خاندانوں کے خدمت گزار ہیں انہیں غیر انسانی سلوک سے آزاد کرنے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق بحال کرنے کی کوشش کی جاتی۔ ان سرداروں خانوں اور وڈیروں کے زیرتسلط رہنے والے لوگ جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی اپنی نجی جیلوں اور عقوبت خانے ہیں۔ جن کی اونچی دیواروں سے ظلم گزیدوں کی چیخیں باہر نہیں آسکتیں۔ ان کے حدود میں ان کے حکم آخری ہے۔یہاں پاکستانی ریاست کا کوئی قانون نہیں چلتا کہ وہ جس کو چاہیں اس کی زندگی چھین سکتے ہی ان کے اپنے جرگے اور اپنے فیصلے ہیں۔مظفر گڑھ کی مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا انسانیت سوز فیصلہ بھی ایک جرگے نے ہی سنایا تھا۔ یہ ظالم سردار خان وڈیرے پاکستان کا کھاتے ہوئے بھی پاکستان کے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ان کے علاقوں میں ریاست کے قانون کی کوئی عمل دخل نہیں۔ یہی خان، سردار ،وڈیرے، پاکستان کی اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ یہ انتہائی بدصورت حقیقت ہے کہ اپنے زیر تسلط لوگوں کی گردنوں پر پیر رکھ کر اسمبلیوں میں انسانی حقوق کی جھوٹی تقریریں کرتے ہیں ، حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں ہر طرح کے اثر و رسوخ ان کے قدموں میں ڈھیر ہوتے ہیں ایسے حالات میں یہ جو چاہیں کریں پاکستان کے قانون کی مجال ہے کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے!سردار عبدالرحمن کھیتران پر اس سے پہلے بھی بھی انسانیت سوز سلوک کرنے اور اپنے مزارعوں پر ظلم ڈھانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔یہ ظالم 2006 میں بھی گرفتار ہوا پھر 2014 میں اس کی نجی جیل پر چھاپہ مار کر محبوس لوگوں کو چھڑایا گیا اس کے باوجود یہ بلوچستان کی حکومت کا حصہ ہے اور وزیر مواصلات ہے۔سانحہ بارکھان نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے ویڈیو پر وائرل ہونے والی خاتون زندہ ہے اور کیتھران کے عقوبت خانے سے بازیاب کرا لی گئی ہے جبکہ دو لڑکوں کے ساتھ مسخ شدہ لاش اس کی 18 سال کی لڑکی کی ہے جس کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ اس کو ریپ کے بعد مار دیا گیا۔ظلم گزیدہ خاتون ناگراں ناز قرآن پاک اٹھا کر دہائی دیتی رہی ہے ۔قرآن کے صدقے سے مجھے اور میرے بچوں کو سردار کی ظلم سے نجات دلاؤ لیکن افسوس اس ملک میں یہی ہونا تھا کسی کے دہائیوں سے ارباب اختیار کے دل نہیں پگھلتے۔لیکن پھر ایک کنویں سے اس خاتون کی جواں سال بیٹی اور دو بیٹوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی تو سوشل میڈیا پر ہلچل مچی۔اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اس مظلوم کا اس طرح سے زیادتی کے بعد مار دیا جانا کبھی کسی کے نوٹس میں نہ آتا۔ اس کیس میں سو فیصد سوشل میڈیا کی طاقت ہے سے دباؤ بڑھا اور فرعون صفت سردار کو گرفتار کیا گیا۔ وگرنہ مین سٹریم میڈیا چینل بھی ان سرداروںکے خلاف خبر چلانے کی جرأت نہیں رکھتے۔یہ سوشل میڈیا کی طاقت تھی کہ مظلوم خاتون کے ساتھ کیس کو اتنا وائرل کیا ،سردار کی تصویروں پر لعنت بھیج کر اس کو شیئر کیا اور بلوچستان حکومت پر ایک دباؤ پیدا کیا جس کے سامنے بالآخر انہیں سرنڈر ہونا پڑا اور وقتہ طور پر ہی سہی کیتھران کو گرفتار کرلیا گیا۔عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہی سہی فی الوقت اس کو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن اس سے وہاں بھی وی آئی پی سلوک ہوگا یہ تھانے کچہریاں یہ جیلیں ،ہر جگہ ان کے خدمت گزار موجود ہیں کیونکہ اس نظام میں غریب اور مظلوم کے انصاف کا رستہ رکھا ہی نہیں گیاآخر یہی ہوگا کہ کھتران چھوٹ کر واپس اسمبلی میں آجائے گا تب تک سوشل میڈیا پر اس ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازیں دھیمی پڑ چکی ہوں گی ابھی کچھ روز فالو اپ خبریں آئیں گی اس کے بعد جب جذبات ٹھنڈے ہوگئے تو کسی کو کیا لینا دینا کہ اس کے بعد کیا ہوا ؟کیونکہ سوشل میڈیا کی فوجیں کسی اور ٹرینڈ،کسی اور خبر کسی اور سانحے کے پیچھے دوڑ پڑیں گی۔ سانحہ ساہیوال کسی کو یاد ہے پنجاب کے ایک اہم شہر ساہیوال میں دن دہاڑے ایک شخص اور اس کی بیوی ایک جوان بیٹی کو اس کے تین معصوم بچوں کے سامنے ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سانڈوں نے مار دیا۔بہت شورمچااخبارات،مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا پر خوب ہاہا کار مچی۔ اس کو ٹیسٹ کیس کہا گیا، لیکن اس ٹیسٹ کا نتیجہ کیا نکلا کہ تمام ملزمان جنہوں نے گولیاں چلائی تھیں ان کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیا گیا۔بلوچی پنجابی سرائیکی، سندھی وڈیرے اور سرداد ہیں جبر اور ظلم کے استعارے نہیں پاکستان کے بڑے شہروں میں موجود آبادیوں کے بڑے بڑے بنگلوں میں گھریلو ملازمین کے ساتھ بھی بدترین سلوک ہوتا ہے۔ان گھروں کے نیچے خفیہ تہہ خانے بنا ہے ہوتے ہیں ان تہہ خانوں میں ریپ ہونے والی گھریلو ملازم لڑکیوں کی چیخیں بنگلے کی دیواریں نہیں پھلانگتیں،آج بھی مجھے ان مظلوم لڑکیوں کے چہرے یاد آتے ہیں جو پوش علاقے کے ایک گھر میں ظلم اور جبر کے ماحول میں رہ رہی تھیں۔ایسی بے کس اگر ظلم کے دوران مار دی جائیں تو ان کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی اور ان کے مالکان جو ان پر ظلم ڈھا کر شام کو پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ڈنر کرتے ہیں وہ شہر کے معززین میں شمار ہوتے ہیں۔ ممتاز شاعر نذیر قیصر ہمہ جہت استحصالی نظام میں ایسے ہی بدن ہارے ہوئے لوگوں کے بارے میں کس درد سے لکھتے ہیں۔ ہدن ہارے ہوئے لوگوں کہو کس کے لیے جیتے ہو دھرتی کے لیے۔۔۔ دھرتی تو فقط قبروں پر کتبے اگاتی ہے بدن ہارے ہوئے لوگوں کہو کس کے لئے جیتے ہو کن خوابوں کے موتی جاگتی دھرتی میں بولتے ہو ہوائیں چاند سورج کن زمینوں میں اگاتی ہیں تمہارے ہاتھ خالی ہیں بدن ہارے ہوئے لوگو۔۔!