مکرمی!محکمہ پولیس کا نمک کھایا ، عرصہ پینتیس سال نوکری کی۔ بے شمار واقعات کا سامنا ، قدرے مشکل کٹھن لمحات ، مجبوری کا آڑے آنا اور بہت کچھ اس محکمہ کی نظر ہوئے مگر پچھتاوا کوئی نہیں۔ کچھ باتیں استادوں کی ابھی تک یاد آتی ہیں اور تھوڑی شرمندگی بھی کہ دوران ٹریننگ محترم استاد فرماتے تھے کہ تم لوگ ہم سے تعلق صرف ٹریننگ کی حد تک رکھو گے بعد میں "تو کون تے میں کون" کیوں کہ ایک تو فیلڈ میں کام کا بوجھ اور دوسرا نہ ملنا نہ کسی استاد کو پہچاننا ، "وقت کوئی نہں ساڈی مجبوری اے" ۔ ٹریننگ کے احتمام پر حلف برداری ، انصاف کا پرچار، ایمانداری ، رشوت سے اجتناب وغیرہ وغیرہ ، انصاف مہیا کر سکے اور نہ ثابت قدم رہے۔ نوکری کا آغاز خاصے جذبے ، خدمت کرنے کا بھاشن ، انصاف گھر کی دہلیز پر مگر افسوس زیادہ دیر نہیں اور پھر اسی رنگ میں ڈھل جانا ، ایک اٹل حقیقت بن جاتا ہے ۔ ویسے اب کے دور میں اور سابقہ ، ایک واضع فرق نظر آتا ہے کہ اب کمپوٹر کا دور پڑھے لکھے کنسٹبلان و افسران کی محکمہ میں آمد خوش آئند ہے مگر افسوس کہ وہ بھی دیگر محکموں کی طرح ، رشوت، ناانصافی اور "ساڈی مجبوری اے" میں کافی حد تک رچ مچ گئے ہیں ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ اس محکمہ میں کچھ افسران ملازمین اسے بھی ہیں کہ جن کی کوشش ہوتی ہے کہ رشوت نہ لینی پڑے نہ دینی پڑے۔ ایک اے ایس آئی صاحب دوران سروس افسردہ حال کہنے لگے"سر تھانہ فلاں فلاں تعینات ہوں ، ساری تنخواہ چالان پاس کروانے مال مقدمہ جو پلے سے ڈالتے ہیں ، ملزمان کو جیل تک پہنچانے اور دفتروں میں خرچ ہو جاتی ہے۔ کوشش میں ہوں کہ کسی دفتر تعینات ہو جائوںٔ کم از کم تنخواہ تو بچ جایا کرے گی" اور وہ صاحب عرصہ 10/12 سال سے دفتر تعینات ہیں اور بہت خوش ہیں۔ زرا سوچیں یہ سب کیسے ٹھیک ہو گا۔ عابد کا شمار گویا کہ ایک بدنام زمانہ کے طور پر لیا جاتاہے مگر کیا دلیر ، دبنگافسر تھا ۔ گویا کہ اس موضوع کو مزید بڑھانا مناسب تو تھا مگر ڈر لگتا ہے ۔ افسوس صرف یہ ہے کہ کسی انسپکٹر یا پولیس والے کی تذلیل اس طرح ہوتے پہلی دفعہ دیکھا۔ (شیخ غیاث)