نواز شریف اس دروازے سے محض دو قدم کی دوری پر ہیں۔ بلاول بھٹو سیڑھی پر چڑھ کر ایوان اقتدار کے صحن میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جیل میں مقید عمران خان کسی معجزے یا انہونی کے منتظر۔ نواز شریف کا ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا اور مکان کے خوشنما وعدہ اور عمران خان کے ریاست مدینہ‘ آزادی 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے ریت کی طرح اڑتے دکھائی دے چکے۔ عام پاکستانی کے لئے صرف بے بسی‘ مجبوریاں ‘ بے چارگی‘ افسوس اور آنسو بچے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس وقت ایک ایسے دوراہے پر آکھڑے ہوئے ہیں جہاں قومیں بنتی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں۔ اگر ہم نے اتحاد یقین اور ایمان کی رسی پکڑ لی تو دوسرے سرے پر امید کی کرن اب بھی موجود ہے۔ ہم جس طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں ، سوشل میڈیا پر جس طرح ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں‘ وہ ایسا ہی ہے کہ ہمارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے کھائی ہے ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ ملک قطار در قطار اقتدار حاصل کرنے کے متمنی لوگوں کے لئے بنا ہے اور اس ملک کی زمینوں میں سمجھوتوں‘ مفاہمتوں اور اکھاڑ پچھاڑ کے علاوہ کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ الیکشن سے قبل یوں لگ رہا ہے کہ نواز شریف کے دامن میں خوش فہمیاں‘ خوش گمانیاں‘ ضمانتیں ‘ یقین دہانیاں اور تھپکیوں کا ذخیرہ ہے۔ آصف علی زرداری کی پوٹلی میں نت نئی ترکیبیں اور جوگاڑ ہیں۔ عمران خان پربھوت سوار ہے کہ پورا ملک ان کے ساتھ ہے وہ ان کے کندھوں پر بیٹھ کر تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ایوان اقتدار تک پہنچ جائیں گے۔یوں لگتا ہے پاکستان میں جینوئن جمہوریت اور سیاست ممکن ہی نہیں جب سیاست دان طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ دو اور کچھ لو کا فارمولا نہیں اپنائیں کے تو سیاست نہیں کر سکیں گے اس لئے تمام سیاستدانوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو قدم بھی اٹھائیں۔ سوچ سمجھ کر اٹھائیں۔ جنت اور دوزخ میں زیادہ فاصلہ نہیں۔ حکمرانوں کی طرز حکمرانی اور پے درپے مفاد پرستانہ فیصلوں اور اقدامات کے سبب من حیث القوم ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک جاپانی سرمایہ کار نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کہا تھا کہ جس ملک کے اپنے لوگ اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں شفٹ کر رہے ہوں اس ملک میں ہم سرمایہ کاری کیوں کریں؟۔ دنیا میں جب بھی کسی انسان‘ خاندان یا قوم پر بُرا وقت آتا ہے تو سب سے پہلے وہ قوم وہ خاندان اور وہ شخص اپنے وسائل اور اپنی جمع پونجی باہر نکالتا ہے اس کے بعد اس کے دوست احباب اس کی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے بُرے وقت اپنا سرمایہ تو چھپا لیا ہو اور غیر اس کی مدد کے لئے میدان میں آ گئے ہوں۔ ہمارا ملک اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے ہم دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے ہیں ہماری ایکسپورٹس کم ہو چکی ہیں اور امپورٹس میں اضافہ ہو چکا ہے گزشتہ پانچ سال میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں۔ بے روزگاری مہنگائی اور افراط زر نئے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ ہم در در بھیک مانگ رہے ہیں ہمیں اس کرائسس سے نکلنے کے لئے 30سے 40ارب ڈالرز درکار ہیں ہم کبھی امریکہ کی طرف بھاگتے ہیں کبھی سعودی عرب اور متحدہ امارات کی طرف پھر چین کی طرف دیکھتے ہیں ۔ آئی ایم ایف ہم سے ناک کی لکیریں نکلواتا ہے ۔ہم کشکول لے کر پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں لیکن اپنی پوٹلی نہیں کھول رہے۔ ہمارے تمام حکمران‘ ہمارے سیاستدان ہمارے بیورو کریٹس ہمارے تمام کرتا دھرتا جن کا سرمایہ غیر ملکی بنکوں میں پڑا ہے ہمارے بزنس مین اور صنعت کار اپنی رقم ڈالرز میں تبدیل کروا رہے ہیں جس ملک پر اس کے اپنے حکمرانوں سیاستدانوں بیورو کریٹس اور شہریوں کو اعتماد نہ ہو۔ اس ملک کی آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک‘ چین ‘ یورپ ‘ امریکہ اور مڈل ایسٹ کہاں تک مدد کرے گا؟۔ دنیا ہمیں اپنا سرمایہ کیوں دے گی چنانچہ اگر حکمرانوں کو اس ملک پر اعتماد ہے تو سب سے پہلے انہیں اپنے غیر ملکی اکائونٹس میں پڑی رقم ملک میں واپس لانی چاہیے یہ لوگ بیرون ملک اپنی جائیدادیں بیچ کر سرمایہ پاکستان میں منتقل کریں ۔ پاکستان کے سیاستدان بیورو کریسی کے لوگ اپنا سرمایہ غیر ممالک میں شفٹ کرنا بند کریں۔ ہماری اشرافیہ اور سابق وزراء اپنی رقوم واپس لائیں اور اس کے بعد بیرون ملک موجود پاکستانیوں سے درخواست کی جائے کہ وہ ہمیں زرمبادلہ کی صورت میں دو ہزار سے پانچ ہزار ڈالر تک اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بھجوا دیں یقین کیجیے اس ایک فیصلے سے ہم بھیک مانگنے کی ذلت سے بچ جائیں گے اور دنیا بھی ہم پر اعتماد کرنے لگے گی۔ الیکشن سر پر ہیں۔ سب ہی جھوٹے سچے وعدے کر رہے ہیں بعض ایسے خوشنما وعدے جو اس بحرانی دور میں قابل عمل نہیں اگر حکمران اپنے وعدوں پر عمل کرتے تو آج ہر طرف خوشحالی کا راج ہوتا۔ سب کے پاس روٹی کپڑا اور مکان ہوتاسب کے پاس ملازمتیں ہوتیں‘ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہوتی لوگوں کے لئے تعلیم اور صحت کی سہولتیں میسر ہوتیں۔ اس ملک میں مافیاز کا یوں عمل دخل نہیں ہوتا۔مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا کوئی میکنزم ہوتا اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آج ہم جس حال میں پہنچ گئے ہیں اس کے ذمہ دار حکمران ہیں جنہوں نے جھوٹ بولا۔ خواہ وہ فوجی حکمران تھے یا سویلین۔ یہ کون سی ترقی ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں اس ملک میں کرپشن نے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان لوگوں پر کیسے اور کیونکر اعتبار کیا جائے جن کو آزما لیا گیا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اکثریت کی بات مانی جائے اور اقلیت کو بات کرنے دی جائے۔ لکھ لیجیے اگر آگے بڑھنا مقصود ہے تو ماضی پر لکیر کھینچنا ہو گی کیونکہ وسیع مفاہمت ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کسی فریق کا ہاتھ مروڑنے سے کام نہیں چلتا۔ سب کو تدبر تحمل اور رواداری اور راست بازی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایک گہری اندھیری اور لامتناہی رات چھائی ہوئی ہے۔ جس کوموقع مل رہا ہے۔ وہ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے مکالمے کے آغاز کے لئے اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اس معاملے میں آگے بڑھ کر اپنی بڑائی کا ثبوت پیش کریں ہم سب اس ملک کی مٹی سے اٹھے ہیں بس یہ سوچیں کہ کیا ہم نئی اور انوکھی تاریخ لکھنے کے اہل ہیں۔