نذیر غازی صاحب سے ایک دفعہ ان کے پرانی انارکلی والے دفتر میں ملاقات ہوئی ۔۔۔ یہ ملاقات بالکل اچانک اور اتفاقیہ تھی۔ ان کے روحانی سلسلے کے اولیاء سنٹرل ایشیاء میں دفن ہیں۔ ایک انگریزی کتاب تھی۔۔۔ سلسلہ نقش بندکی ۔ مجھے کہنے لگے باآوازِ بلند اسے پڑھیے اور حاضرین مجلس کو بھی سنائیے اور بتایئے۔ ملاقات کے اختتام پر کہنے لگے ’’یہ سب آپ کا رز تھا ، آپ کو اتفاق لگ رہا ہے، مگر رب کے پاس لوح محفوظ پر یہ سب طے شدہ ہوتا ہے۔ نجم شاہ صاحب روحانی استاد ہیں اور اکثر کہتے ہیں کہ’’یہ مزارات دراصل روحانی فیض کے سکول، کالج، اور یونیورسٹیاں ہیں۔ پی ٹی وی میں ایک دن اپنی پروڈیوسر کے ساتھ ڈسکس کیا کہ کیوں نہ مزارات پر ایک پروگرام کیا جائے۔ اسکا انٹرو داتا سرکار پر کیا جائے اور پھر میاں میر ۔۔۔ اور موج دریا سے ہوتے ہوئے ۔۔۔ حضرت واصف علی واصف ۔۔۔ طاہر بندگی اور غازی علم دین صاحب کے مزاروں پر وائنڈاپ کیا جائے۔ مگر اللہ کے ہاں کچھ اور ہی طے تھا۔ داتا سرکار پر پروگرام کرنے کی اجازت ملنے میں تاخیر ہوگئی ۔ ریکارڈنگ کا دن آن پہنچا۔ سوچا واصف صاحب کے مزار سے شروع کر لیا جائے۔ واصف صاحب کے مزار پر پہنچے ۔۔۔ پوری ٹیم نے ان کے حضور اپنا سلام پیش کیا۔ان کے مزار میں ایک قطعہ لکھا دیکھا۔۔۔ پھر دوسرا قطعہ اور پھر ان کی باتیں۔ میں ان کو عرصہ سے پڑھ رہا تھا۔۔۔ مگر کچھ ایسے مصرعے تھے کہ دل سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔۔۔ بار بار نجم شاہ صاحب کی بات یاد آرہی تھی۔۔۔ کہ مزارات روحانیت کے سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہوتے ہیں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ کسی بڑے انٹر نیٹ نیٹ ورک سے مسلسل کچھ وارد ہو رہا ہے مگر لکھ نہیں سکتا۔ جوبات عدم سے وجود آجائے جملہ ہو یا کیفیت اسکا لطف کم ہو جاتا ہے۔ واصف صاحب کو جاننے سمجھنے اور ماننے والے انہیں قطب ارشاد کہتے ہیں۔ ان کے صاحب زادے محترم کاشف صاحب بتاتے ہیں کہ انہیں۔۔۔ ان کے والد محترم حضرت واصف علی واصف صاحب نے بتایا کہ اس سفر میں ایک منزل ایسی بھی آئی کہ ان سے پوچھا گیا کہ مانگیے ۔۔۔ کیا مانگتے ہیں۔ قبلہ واصف صاحب نے کہا ’’یا قلم دیدیں یا بیان دیدیں‘‘۔ جواب آیا۔۔۔ آپ کو دونوں ہی عطا کئے۔ بابا جی اشفاق احمد صاحب اسکی گواہی دیتے تھے کہ واصف صاحب کا بیان اور قلم دونوں ہی ۔۔۔ لاجواب تھے۔ واصف صاحب اپنی محفل میں حاضرین سے کہا کرتے ۔۔۔ سوال کرو۔ یہ معلوم علم کی بات نہیں۔۔ یہ کتابی علم بھی نہیں تھا اور اکتسابی بھی۔ یہ وہ بات ہے جو اللہ اپنے حبیب کی محبت کے صدقے میں ولیوں کو عطا کرتا ہے جہاں سے نبوت ختم ہوتی ہے ۔ وہاں سے ولایت کی ابتدا ہوتی ہے اور ولایت کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو ایک سمندر ہے۔ ولی ، قطب ، ابدال، غوث، قلندر، اوتاد اور قُطبِ عالم۔ یہ سب ایک ایسا علمی سلسلہ ہے جسے درویش علم لدُنی کہتے ہیں۔ کسی ولی نے کیا خوب کہا ۔۔ کیمیا، ریمیائ، لیمیا، سیمیا۔۔۔ کس نداد جُز بذات اولیائ۔ یہ علوم کسی یونیورسٹی ، کالج اور دنیاوی ادارے میں نہیں پڑھائے جاتے مگر اولیا اللہ ان کے رازوں کے امین ہوتے ہیں۔ کسی جگہ ایک اللہ کے بندے نے لکھا ہے ۔۔۔ قرآن حکیم کے مفاہیم وحی خدا وندی ہیں۔ اس کے حروف اور الفاظ الہامی ہیں۔ ان کے اور ہمارے درمیان واسطہ اور پُل سرکار رسالت مآب ؐ ہیں۔ جب کوئی خود سے زیادہ اللہ اور اسکے رسولؐ کو چاہتا ہے تو وہ بھی کائنات کے سب سے بڑے روحانی سنٹر سے وابستہ ہو جاتا ہے۔پھر وہ جو لفظ اور خیال اس روحانی مرکز سے وصول کرتا ہے، وہ کبھی مخلوق کے سامنے بھی پیش کر دیتا ہے۔ نبوت حاصل نہیں کی جاسکتی ۔۔ نبی اللہ کے منتخب ہوتے ہیں۔ ولایت کے حصول میں انسانی کاوش کا دخل ہے۔ اللہ پاک اپنی کتاب میں ارشاد فرما رہے ہیں’’وہ جو اس کی راہ پر آجاتے ہیں، اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ وہ ان کی راہنمائی فرماتا ہے اور نورِ ہدایت میں اضافہ کرتا ہے‘‘۔ واصف علی واصف صاحب مخلوق کے سوالوں کے جو جواب دیتے تھے وہ جواب کہاں سے آتے تھے۔ اسے کچھ اللہ والوں نے صوتِ سرمدی کا نام بھی دیا ہے۔ اسے آسان زبان میں روحانی نشریاتی سنٹر یا روحانی انٹرنیٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں تصرف رکھنے والے اپنے پاس آنے والوں کی بات سنتے ہیں۔ صوتِ سرمدی سامنے بیٹھے انسان کا ڈیٹا درویش کو پیش کر دیتی ہے۔ درویش اس کے باطن پر نگاہ دوڑاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ٹائم ، سپیس، اور سائل کے مابین تعلق میں کیا دقت درپیش ہے۔ یہ ایک کیفیت ہوتی ہے۔ اگر صاحب کیفیت ، باہوش ہے تو بات اشاروں میں یا ایڈٹ کرکے بیان کرتا ہے۔ اگر صاحب کیفیت حالت جذب میں ہے تو مسلسل بولتا ہے۔ ایسے میں وہ ۔۔۔ وہ بھی بتاتا ہے جو بہت دور فاصلے پر ہو رہا ہوتا ہے۔ ان کا روحانی گوگل سسٹم اللہ کے سسٹم سے معلومات لیتا ہے۔ یہ لوگ مست الست ہوتے ہیں۔ ان کے پاس میڈیم ویوز ، شارٹ ویوز اور بھی بہت سے ویوز ہوتے ہیں۔ بابا جی واصف علی واصف صاحب کے چند جملے ۔ ٭ ’’صاحب خیال کے پاس خیال بے آواز وبے الفاظ آتے ہیں لیکن خیال کا اظہار ۔۔۔ الفاظ کا محتاج ہے۔ اکثر اوقات الفاظ خیال کا حجاب بن جاتے ہیں‘‘۔ ٭ ’’رزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو، آنکھوں کی بینائی بھی رزق ہے۔ دماغ میں خیال رزق ہے۔ دل کا احساس رزق ہے۔ زندگی رزق ہے، ایمان بھی رزق ہے‘‘۔ ٭ ذکر سے محویت حاصل کرو۔۔۔ سکون مل جائے گا۔ بابا جی کا کلام۔۔ میں خبر کے دام کا دام ہوں میں خرد کدے کا امام ہوں میں علی ولی کا غلام ہوں اسی تاجدار کی بات ہوں میرا نام واصف ۔۔ باصفا میرا پیر سید مرتضیٰ میرا ورد ۔۔ احمدمجتبیٰ میں سدا بہار کی بات ہوں۔