امریکی آئین محض چھ صفحات پر مشتمل ایک تاریخی ڈاکیومنٹ ہے جو خطہ ِ ارض کی طاقتور ترین حکومت کے طرزِ حکومت، عوامی حقوق کی فراہمی، انتظامی معاملات کی سرانجام دہی، عدالتی نظام کی ورکنگ اور دیگر معاملات کا بھرپور انداز میں احاطہ کرتا ہے۔ چھ صفحات کا یہ واضح، صاف اور سادہ سا آئین ہے جو حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر صورت میں امریکی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت، انصاف کی فراہمی سمیت تمام ایشوز کو بہتر انداز میں حل کرے گی۔ امریکی آئین میں اب تک محض چند ترامیم کی گئی ہیں۔ امریکہ دنیا کی واحد حکومت ہے جو قانونی یا غیر قانونی انداز میں امریکہ داخل ہونے والے غیر امریکیوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ غیر قانونی طور پر امریکہ پہنچنے والوں کو ’نان ریزیڈینٹ ایلین‘نام سے ایک شناختی کارڈ فراہم کیا جاتا ہے جو دیگر امریکی شہریوں کی طرح اْنہیں بھی بھرپور حقوق فراہم کرتا ہے۔کسی بھی طرح سے امریکہ پہنچنے والے افراد کو امریکی حکومت بے دخل نہیں کرتی۔ ایسے افراد جب امریکی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو اِیمی گریشن حکام اْنہیں ائیرپورٹ سے ہی لاؤنچ میں لے جاتے ہیں جہاں پہلے سے ہی عدالت لگی ہوئی ہوتی ہے۔ امریکی سرکار کی جانب سے ایک وکیل مہیا کردیا جاتا ہے جو کیس کے اندراج کے بعد تمام معاملات میں اْن کی رہنمائی کرتا ہے۔ سابق امریکی صدر باراک حسین اْوباما اور موجودہ صدر جوبائیڈن کی یہ خواہش رہی ہے کہ کسی طرح غیر قانونی طور پر امریکہ داخل ہونے والے سبھی افراد کو قانونی طور پر شہری تسلیم کرلیا جائے۔ مگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ ماننا تھا کہ ایسے سبھی افراد کو امریکہ سے بے دخل کردیا جائے مگر وہ ایسا نہیں کر پائے۔ کیونکہ امریکی آئین سرزمین ِ امریکہ پہ قدم رکھنے والوں کو جذبہ ِ انسانیت کے تحت سبھی حقوق فراہم کرنے کی گارنٹی دیتا ہے۔ امریکہ میں جھوٹ بولنا ایک بیماری مانا جاتا ہے۔ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ امریکی شہری موبائل اور سکرین سے ہٹ کر زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ ہر ہفتے میں جمعہ کے روز سبھی امریکی ویک اینڈ منانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور تقریباً ستر سے اسی فیصد امریکی شہری اپنا ویک اینڈ بھرپور انداز میں مناتے ہیں۔ امریکہ میں ’سیونگ‘ یا رقم جمع کرنے کی کسی کو عادت نہیں کیونکہ سبھی کو معلوم ہے کہ امریکی سرکار اپنے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔اِس لئے بٹوے میں ضرورت سے زیادہ رقم رکھنا جرم ہے۔ لڑائی کرنے والی جگہ سے جو بندہ پہلے بھاگ جائے اْس جگہ جمع ہونے والے سبھی افراد تالیاں بجا کر اْس کی بہادری کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ یہ بندہ سمجھدار تھا اِس لئے بھاگ گیا وگرنہ لڑائی کا انجام ہمیشہ اچھا نہیں نکلتا۔ تمام امریکی شہریوں کو یقین ہے کہ امریکی سرکار اپنے شہریوں کو کسی صورت میں بے یارو مددگار نہیں چھوڑسکتی اِس لئے آدھی سے زائد آبادی کو اِس چیز سے غرض ہی نہیں ہوتاکہ امریکہ پہ حکومت کرنے والے صدر یا سینیٹرز کیا کررہے ہیں۔ بلکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اْن کی حکومت امریکہ میں یا دنیا کے کسی اور کونے میں جو بھی کررہی ہے وہ امریکہ کے لئے بہتر کررہی ہے۔ امریکی سب کام کرتے ہیں اور سب زندگی انجوائے کرتے ہیں۔ کینیڈا سمیت دیگر مغربی ممالک سے امریکہ سستا ملک ہے۔ امریکہ میں صفائی کرنے والا بھی اچھی گاڑی افورڈ کرسکتا ہے۔ نیویارک جسے دنیا کا ایسا شہر کہا جاتا ہے جو کبھی نہیں سوتا دراصل دو طرح کی زندگیاں گزار رہا ہے۔ ایک نیویارک دنیا کی آنکھوں کے سامنے سطح زمین کے اْوپر موجود ہے جبکہ دوسرا نیویارک سطح زمین کے اندر موجود ہے۔ نیو یارک کے نیچے ایک ایسا جہان آباد ہے جس کی منصوبہ بندی شاید سو سال قبل کی گئی تھی۔ اولین امریکی حکام جانتے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا امریکہ کا رخ کرے گی تب دکھانے کے لئے اْن کے پاس ایسا شاندار شہر ہونا چاہئے جو دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کردے۔ امریکہ آنِ واحد میں ایسا نہیں ہوگیا بلکہ امریکی تاریخ انتہائی تلخ تجربات سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے۔ اطالوی سیاح کرسٹوفر کولمبس نے ملکہ سپین ایزابیلا اور اْن کے شوہر فرڈی نینڈ کی امداد کی بدولت جب اِنڈیا کی تلاش میں آج کے کیوبا اور بعد ازاں امریکی سرزمین پہ قدم رکھا تو اْسے یقین ہوگیا کہ اْس نے سونے اور چاندی سے لدی مشرقی سرزمین یعنی برصغیر (انڈیا) کو تلاش کرلیا ہے۔ جب سونا تلاش کرنے پہ اْسے مایوسی ہوئی تو اْس نے مقامی افراد کو غلام بنانا شروع کر دیا۔ اپنے دو بھائیوں سمیت اْس نے امریکی سرزمین پر رہنے والے افراد پہ زندگی تنگ کردی۔ کئی جزیروں سے مقامی امریکیوں کا صفایا کر دیا۔ کولمبس نے مقامی امریکیوں پہ ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈھائے جن کے متعلق پڑھ کر انسانیت شرماجائے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک اطالوی سیاح ’امریگو ویسپوکی‘ نے 1497اور 1504کے دوران اِس سرزمین کا سفر کیا اور اپنے نام پہ اِس کا نام ’امریکہ‘رکھا۔ مگر جو ظلم دوسرے اطالوی سیاح کرسٹوفر کولمبس نے کیا اْسے آج بھی امریکی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ظلم و بربریت کی اِس داستان کو ڈیوڈ سٹینرڈ نے اپنی کتاب ’امریکی ہولوکاسٹ‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ظلم و بربریت سہنے کے بعد امریکی جرنیل اور پہلے صدر جارج واشنگٹن کی سربراہی میں امریکی عوام نے مل کر اپنی حکومت کو اس قدر طاقتور کیا ہے کہ آج دنیا کا ہر دوسرا آدمی امریکہ زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ یہ ایک یا دو دن یا چند سال کی نہیں بلکہ امریکی عوام کی صدیوں کی محنت کا صلہ ہے کہ آج امریکہ دنیا کی تمام حکومتوں میں طاقتور حکومت کا مالک ہے۔ اب تصویر کے دوسرا رخ دیکھیں تو صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان ایک غیور قوم ہے۔ مسائل کی نسبت وسائل کی بہتات ہے۔ طاقتور ترین فوج موجود ہے۔ طاقتور عدلیہ موجود ہے۔ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ سمیت سبھی نظام موجود ہیں۔ ترقی پذیر اقوام اور ترقی یافتہ اقوام کے ترقی کرنے کے ماڈلز موجود ہیں۔ ہم نے بہترین ماڈل کو اْٹھا کر صرف اپنے ملک میں لاگو کرنا ہے۔ ہم یہی نہیں کرپا رہے۔ جس کے سبب پاکستان کی کرنسی بدترین انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ غریب تقدیر کے سامنے گھٹنے ٹیک کر موت مانگ رہا ہے۔