ایوپ سلطان سے کچھ ہی بلندی پر ایک تاریخی اور سیاحتی مقام آباد ہے جسے پیئر لوٹی کہا جاتا ہے۔یہ پہاڑی اپنے اندر پوری ایک داستان سموئے ہوئے ہے۔ یہاں تک جانے کے دو ذریعہ ہیں ۔ایک ذریعہ سلطان ایوپ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک کیبل کار ہے جو آپ کو وہاں تک لے جاتی ہے۔ پیئر لوٹی در اصل ایک فرانسیسی ادیب تھا، بطور بحری افسر فرانسیسی حکومت کو اپنی خدمات سر انجام دے رہا تھا۔سیاحت اور آوارگی کا دلدادہ ، دنیا کے کونے کونے سے آشنا، استنبول کو دل دے بیٹھا ۔ کہا جاتا ہے کہ لوٹی انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں لاتعداد مرتبہ استنبول آیا۔ اس کے دو نمایا ں ادبی شاہکار ،Aziyadé اورLes Désenchantées اس کی اسی محبت کے مرہون ِ منت سمجھے جاتے ہیں۔ اس پہاڑی پر کئی ریسٹورینٹس اور کافی شاپس موجود ہیں۔ یہاں بیٹھ کر استنبول کا منظر قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ رشک بھی۔ استنبول شہر اور آبنائے باسفورس کا میلاپ دیکھنے کے لیے اس سے خوبصورت اور کوئی جگہ نہیں۔ ایوپ سلطان سے پیئر لوٹی تک جانے کا دوسرا راستہ ایک قدیم قبرستان سے ہوکر جاتا ہے۔ اس قبرستان کو گھنے درختوں نے اپنے سائے میں لے رکھا ہے۔ جنگل نما قبرستان ، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پوری پہاڑی کونیچے سے اس قبرستان نے لپیٹ رکھا ہو۔ استنبول میں دکانیں، کافی شاپس اور ریسٹورینٹس عموماً رات ۸ بجے بند ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جو ساری رات شہرِ استنبول کے شباب کو زندہ رکھتی ہے اور وہ ہے ٹاقسم اسکوائر۔ یہاں بے انتہا شاپنگ پوائنٹس ، ریسٹورینٹس اور ہوٹلز موجود ہیں۔ رات جب تمام استنبول سکوت میں ڈھل جاتا ہے۔ ٹاقسم کی گہما گہمی اسے جگائے رکھتی ہے۔یہاں سے تقریبا سوا تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک تاریخی شاہکار گلاتا ٹاور موجود ہے۔ یہ تکون سر والا بلند مینارپندرہ سو سالہ تاریخ رکھتا ہے۔ بازنطینی جاہ و جلال کا عکاس یہ مینار ۵۰۸ء میں بازنطینی حکومت نے بنایا تھا۔ اس کی تعمیر کی وجہ بلندی سے دشمنوں کے بیڑوں پر نظر رکھنا تھا۔ بعد ازاں جب استنبول پر عثمانی حکومت قائم ہوئی تو اسے مزید بلند کیا گیا اور اس کے اوپر اس تکون کو تعمیر کیا گیا جو آج بھی موجود ہے۔ یہ تکون اس مینار پر عثمانی طرز ِ تعمیر کو عیاں کرتی ہے۔ استنبول میں آخری دن کا ابھی آغاز ہی ہوا تھاکہ دل کے نہاں خانوں میںپھر ایوپ سلطان جانے کی جستجو پیدا ہوئی۔اکتوبر استنبول میں بارشیں لیکر آتا ہے۔ اس روز بھی صبح کے وقت رم جھم جاری تھی۔ ہوٹل سے ایوپ سلطان دو بسوں کو بدل کر پہنچا تو بارش تیز ہو چکی تھی۔ برستے بادلوں میں قدموں کی چال ذرا تیز تھی اور شاید اسی تیزی میں دربارِ حضرت ابو ایوب انصاریؓ میں داخل ہوا تو سامنے موجود مہتمم نے دیکھتے ہی ایک لفظ بارہا دوہرانا شروع کردیا ’’ادب، ادب، ادب۔۔۔‘‘ اقبال ؒ یاد آگئے۔ آپؒ کا یہ مصرع کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں سن تو رکھا تھا، لیکن ادب کو محبت کا پہلا قرینہ بنتے نظروں کے سامنے پہلی بار دیکھا ۔ جنابِ مہتمم سے درخواست کی کہ حضرتِ سلطانؓ کی بارگاہ میں بیٹھنے کی اجازت میسر ہے۔ انہوں نے تائید میں سر ہلایا اور پھر کافی دیر وہیں بیٹھا رہا۔ ہوٹل واپسی پر چیک آئوٹ کرتے ہی، ایئر پورٹ کی جانب روانگی تھی۔ وہاں سے آگے حجازِ مقدس کو سفر ۔ تمام بارگاہوں سے بڑی بارگاہ میں حاضری تھی۔ بختوں والا ، نصیبوں والا سفر تھا۔ استنبول ایئرپورٹ اپنے اندر ایک پورا جہان رکھتا ہے۔ترکش ایئر لائن کے ذریعہ استنبول سے جدہ کی فلائٹ اور پھر وہاں سے مکہ مکرمہ روانگی ہوئی۔ استنبول سے جدہ کا سفر ۴ گھنٹے کا تھا۔جدہ ایئرپورٹ بھی ایک شہر کی صورت لگتا ہے۔ جدہ سے مکہ کا سفر لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔ رات کے دو بجے کے قریب حرم پاک کی پُر نور فضائوں میں داخل ہونے کی سعادت میسر ہوگئی۔ عمرہ کی سعادت کے بعد مدینہ منورہ روانگی تھی۔ مدینہ شریف میں پہلا روز تھا، مسجدِ نبوی میں داخل ہوتا تو سوچتا کہ کیسے اس بارگاہ میں حاضر ہوں۔ پلے کچھ نہ ہو تو قدم بھاری پڑ جاتے ہیں۔باب السلام سے اس بارگاہِ سید الکونین ﷺ کی جانب جب قدم بڑھتے تو والد گرامی کی بہت یاد آتی۔آج کل مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے جن کے باعث اس سفرِ سعادت میں شامل نہ ہو سکے۔ ہر قدم پر خیال آتا تھاکہ والد صاحب ساتھ ہوتے تو ان کے پیچھے چھپ کر، ان کے سہارے ، ان کے سائے میں حاضری دے لیتا۔ بڑے اپنی منظوری لے رہے ہوں تو لگے ہاتھوں چھوٹوں کے بھی کام بن جاتے ہیں ۔ والد صاحب ہی نے بتایا تھا کہ ہمارے اسلاف کی عقیدت اور محبت کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ وہ بارگاہِ سیدۃکائنات ؑ میں حاضر ہوکر ان سے سفارش کی درخواست کرتے ہیں۔ اقبال ؒ نے کہا تھا کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ یہ گھرانہ توویسے ہی بڑا لجپال ہے۔ بے سہاروں کو سہارا دینے والا۔ سو میں بھی خاتونِ جنت سیدۃ النسآ ؑکی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔ جنت البقیع میں داخل ہوں تو قبروں کی نشان دہی ممکن نہیں ۔ کہا جاتا ہے داخل ہوتے ہی جن قبروں کے گرد جنگلے نظر آئیں، اہلِ بیت کی آخری آرام گاہیں وہیں پر ہیں۔ کتبِ تاریخ میں لکھاہے کہ حضرت سید جلال الدین بخاریؒ جب مدینہ شریف حاضر ہوئے، تو بارگاہِ رسالت ﷺ میں سلام پیش کرتے وقت کچھ یوں عرض گزار ہوئے ’’السلام و علیکم یا جدی یا رسول اللہ ﷺ‘‘ ۔ آپؒ کو سلام کا جواب آیا تو مدینہ طیبہ میں اُس وقت موجود سادات کو حضرت جلال الدین بخاری ؒکے اِس گھرانے سے تعلق کی سند مل گئی ۔ وہ بڑے لوگ تھے، عظیم ہستیاں تھیں۔ہم چھوٹوں کے پاس اگر کچھ ہے تو بس یہ نسبتوں کی ڈور جسے تھام کر دو قدم چلنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ بڑوں کے پیچھے پیچھے چلتے رہیں تو چھوٹوں کے کام چوہنگے میں ہوجاتے ہیں۔