صدر مملکت کے خط پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے طویل المدتی قرضوں پر ایک خصوصی رپورٹ میں سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی میں قواعد کی خلاف ورزیوں کا انکشاف کیا ہے۔ خزانہ ڈویژن نے 2015ء میں قرضوں کی فراہمی کیلئے اے جی پی آر کی مشاورت سے ایک طریقہ کار وضع کیا تھا۔ کل مختص رقم میں سے10 فیصد ہارڈشپ، 25 فیصد ترجیحی اور معمول کے انتظار کے لیے 75فیصد فنڈ مختص کئے جانے تھے۔قواعد کے تحت ہارڈ شپ کیسز کے لیے ایک معیار ، کیسز کا فیصلہ دو رکنی ہارڈ شپ کمیٹی نے کرنا تھا۔ شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانے کیلئے اے جی پی آر اور فنانس ڈویژن کے ویب پیجز پر فہرستیں آویزاں ہونا تھیں۔مگر ان قواعد پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔تحقیق کے مطابق ہارڈ شپ کیسز میں ہارڈ شپ کمیٹی کی منظوری کے بغیر قرضے دیے جا رہے ہیں۔آڈیٹر جنرل کی تحقیق سے پتہ چلا کہ درخواست دینے کی تاریخ پر ہی انہیں فنڈ کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے، فہرستیں متعلقہ ویب پیجز پر آویزاں نہیں کی جاتیں، موٹر کار ایڈوانس کیسز میں 25 فیصد کے بجائے 56 فیصد فنڈز ترجیحی طور پر جاری کیے گئے، قرضوں کے معاملات میں سنیارٹی لسٹوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ایڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے بعد ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے ۔