انسان اِس فانی دنیا میں روتا ہوا آتا ہے اور روتا ہوا جاتا ہے لیکن ایسے خوش نصیب لوگ بھی ہوتے ہیں جو جاتے ہوئے مسکرا رہے ہوتے ہیں اس لیے تو حضرت اقبال نے فرمایا ہے کہ مومن جب فوت ہو جاتا ہے تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ اور سکون ہوتا ہے جس طرح گذشتہ روز ہمارے بہت ہی پیارے عزیز دوست ارشد علی خان فوت ہونے کے بعد مسکرا رہے تھے۔ میرے بچپن کا عظیم دوست ارشد علی خان کہ جو مجھ سے عمر آٹھ سال بڑے تھے اور 05 ستمبر 2023 میں ریٹائرڈ ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنی ریٹائرڈمنٹ کے موقع پر اپنے تمام دوستوں میں سے صرف مجھے بلایا تھا کہ اُن کے اعزاز میں اُن کے دفتر والوں نے ایک شاندارالوادعی تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا ایک ہنستا مسکراتا چہرہ اچانک منوں مٹی تلے چلا گیا اور جب ارشد علی خان کو قبر میں اُتاردیا گیا اور گورکن نے کفن کے بند کھول دیئے اور چہرہ سے کفن ہٹایا تو زور سے کہا کہ دوستوں دیکھ لوں اِس شخص کا چہرہ خود بخود قبلہ رُخ پھرچکا ہے۔ ارشد علی خان کے چہرے کا قبر میں آخری دیدار بھی میں نے کیا بڑا سکون کے ساتھ ایک دولہا اپنی سیج پر سورہا تھا کہتے ہیں کہ جوان اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے لیکن جوان کو اپنی جدائی بوڑھا کر دیتی ہے اور گھوڑے کو خوراک کی کمی بوڑھا کر دیتی ہے واقعی جب ایک بہت ہی قریبی دوست اچانک بچھڑ جائے تو اِس کی لمبی جدائی انسان کو مار دیتی ہے ارشد خان ایک مخلص اور ہمدرد دوست تھا مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب 1982 ء میں گورنمنٹ جامع ہائی سکول میں مجھے چھٹی جماعت میں داخل کرانا تھا تو والد محترم نے ارشد علی خان اور اُن کے کزن بلال علی خان کو کہا تھا کہ اِس کو اب چھٹی جماعت میں آپ لوگوں نے داخل کرانا ہے تو یہ دونوں دوست مجھے ساتھ لے کر جب گورنمنٹ جامع ہائی سکول گئے تو سامنے بڑے سے ہال میں میرے انتہائی شفق اور پیارے اُستاد محترم جناب عبدالستار صدیقی صاحب داخلے کر رہے تھے جنہوں نے میرا پانچویں جماعت جو کہ میںنے وظیفہ کے امتحان سے پاس کیا تھا اُس کا سرٹیفکیٹ لیتے ہی مجھے اپنے سیکشن میں داخل کر لیا اُن کی محبتوں اور دعاؤں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے پھر جب میرا بی اے کرنے کا مرحلہ آیا تو ارشد خان نے مجھے ہمت دلوائی اور یوں میں بی اے بھی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے پا س کر گیا پھر ایم اے اُردو میں داخلہ لیا اور ایم اے کرنے کے بعد ایل ایل بی کیا یعنی اُس مخلص اور با وفا شخص نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی مجھے وہ لمحات بھی آج تک یاد ہیں کہ جب ارشد خان کے بڑے بھائی اور میرے والد رحیم بخش خان (مرحوم )کے بچپن کے دوست ظفر علی خان نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا یہ 1987ء کی بات ہے میں اُس وقت ڈی کام کر رہا تھا اور ارشد علی خان بہاول پور یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کر چکے تھے لیکن ہم نے اکٹھے ملکر ظفر علی خان (مرحوم )کے لیے دن رات کا کیا اور پھر ظفر علی خان کونسلر منتخب ہونے کے بعد چیئرمین بلدیہ ڈیرہ غازی خان بنے تھے اور پھر اُن کے چیئرمین بننے کی خوشی میں پورے شہر میں جلوس نکالا گیا ۔ دسمبر 1989 ء کو جب میں اور ارشد علی خان پاک لینڈ ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تو وہی پر ہمیں اطلاع ملی کہ ظفر علی خان کو رکنی کے علاقہ میں شکار کھلتے ہوئے دل کا شدید دورہ پڑا ہے اور اُن کو ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ غازی خان لایا جا رہا ہے تو ہم دونوںفوراً ہسپتال پہنچے۔ ارشد علی خان کی طرح 4 دسمبر کو ظفر علی خان کو بھی دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ظفر علی خان کے فرزند ڈاکٹر محمد علی خان اُس وقت نہم کلاس میں زیر تعلیم تھے اور پھر یوں ہوا کہ ارشد علی خان جو اپنے بڑے بھائی سے شدید محبت کرتے تھے وہ بھی 27 دسمبرکو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایمرجنسی پہنچے اور موت حیات کی کشمکش میں مبتلہ رہنے کے بعد 31 دسمبر کو جہان فانی سے کوچ کر گئے ابھی دو ماہ قبل 5 نومبر کو اپنے پیارے بیٹے ڈاکٹراسدظفر علی خان کو سہرا باندھا تھا اور ابھی ایک سال قبل اپنے گھر گارڈن ٹاؤن میں شفٹ ہوئے تھے۔ میں اپنے دوستوںکو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اس لیے میں دو مرتبہ ایمر جنسی میں ارشد علی خان سے ملنے کے لیے گیا ۔ اُن کے بھائی سجاد علی خان نے مجھے اطلاع دی تھی جبکہ اُسی دن مجھے صبح فون کیا اور خیر خریت پوچھتے رہے جبکہ تین روز قبل کچہری میں مجھے اپنا چیمبر دیکھا یا اور کہا کہ اب اِس کو بنوا رہا ہوں اور پھر آپ کے ساتھ وکالت کریں گے لیکن تقدیر اوپر کھڑی مسکر ا رہی تھی کہ اب آپ کی تیاری ہو چکی ہے انسان کی تدبیر کیا سوچتی ہے اور تقدیر اپنا کام کرتی ہے۔ ارشد علی خان کے جانے کا حکم آگیا اور اُس دوریش منش انسان نے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں حاضری میں ذرا بھی دیر نہ کی اور اپنے پیچھے دو صاحبزادوں ڈاکٹر اسد علی خان ، حسن خان اور ایک صاحبزادی جو ڈاکٹر بن چکی ہیں اور اپنی زوجہ محترمہ کو تنہا چھوڑ کر چل دیئے۔ یہی حقیقت ہے جس کا ہم سب نے سامنا کر نا ہے اللہ تعالیٰ ارشد علی خان (مرحوم )کے ساتھ نرمی اور اپنی رحمت کا معاملہ فرمائے اورا ُنہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں