معزز قارئین! پرسوں 23 جون کو پاکستان سمیت دُنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں اپریل 1926ء کو نجفؔ اور حجازؔ کے بادشاہ عبدالعزیز ابنِ سعود کے حکم سے مدینہ منورہ میں واقع ۔گورستان ’’جنّت اُلبقیع ‘‘ کے انہدام کا سوگ منایا گیا۔ 23 جون 2018ء کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں اخبار کے آخری صفحہ 16 پر دو نامور عُلماء ، ڈاکٹر محمد آصف ہزاروی اور مفتی محمد حسنین رضا سیّدی کے ’’ انہدام جنّت اُلبقیع‘‘ اور ’’ مدفونین جنّت اُلبقیع‘‘ کے عنوان سے دو معلومات افزاء مضامین شائع ہُوئے ۔ اُسی روز سات بجے صبح جناب نذیر احمد غازی کے پروگرام ’’ صبح نور ‘‘ میں نامور عُلمائے کرام نے ’’ جنّت اُلبقیع اور ’’ مدفونین جنّت اُلبقیع‘‘ کے بارے میں اپنی گفتگو سے ناظرین کا ایمان تازہ کِیا۔ 

تاریخ کے مطابق ’’ مدینہ منورہ کے ’’ گورستان‘‘ کو اُس میں مدفون مقدّس اور قابلِ احترام شخصیات کی وجہ سے ’’جنّت اُلبقیع‘‘ (بقیع کے باغات) کہا جاتا ہے ۔ جہاں حضور پُر نور ؐ  کی رضائی والدہ حلیمہؔ سعدیہ اور حضرت خدیجہؓ اور حضرت میمونہ ؓ کے سوا تمام اُمہات اُلمومنینؓ دفن ہیں۔ اُن کے علاوہ نبی اکرم ؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؑ ۔بنات رسول ؐ حضرت رقیہ ؑ ، حضرت اُمِ کلثوم ؑ ، حضرت زینب ؑ اور خاتونِ جنت ( زوجہ ٔ  حضرت علی ؑ اور حضرت امام حسن ؑ ، حضرت امام حسین ؑ اور حضرت زینب ؑ کی مادرِ ذِی وقار) حضرت فاطمۃ اُلزہرا ؑ بھی دفن ہیں ‘‘۔ 

دوسرے مدفونین میں نبی اکرم ؐ کے چچا، حضرت عباس ؓ ابن مطلبؓ ، حضرت امام حسن ؑ ( حضرت فاطمۃ اُلزہرا ؑ کی وفات کے بعد ، حضرت علی ؑ کی اہلیہ اُم اُلبَنین ؓ ، رسولِ اکرم ؐ  کی چچیاں ، حضرت صفیہ ؓ  اور حضرت عاتقہ ؓ ، امام زین اُلعابدین ؑ ، امام محمد الباقر  ؑ ، امام جعفر الصّادق  ؑ نواسی رسولؐ حضرت بی بی زینب ؑ کے شوہر، حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؑ ، (حضرت علی کے بڑے بھائی ) حضرت عقیل ؑ بن ابی طالب ؓ ، خلیفہ ٔ راشد سوم حضرت عثمانؓا بن عفانؓ ، حضرت عثمانؓ معظون ؓ ،حضرت ابو سعد الخدری ؑ ، قاضی حضرت مالک بن انسؓ ، حضرت مفعی المدنی ؓ شامل ہیں۔

معزز قارئین!۔ ستمبر 1991ء میں مجھے ، صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے عمرے کے موقع پر اُن کے ساتھ خانہ ٔ  کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی اور پھر مدینہ منورہ میں ’’جنّت اُلبقیع‘‘ کی زیارت کا بھی موقع مِلا۔ ’’جنّت اُلبقیع‘‘ میں ِ ’’ تربتِ خاتونِ جنّت ‘‘ کو دیکھ کر بہت اُداسی ہُوئی۔ مجھے ’’ جنّت اُلبقیع ‘‘ پر نامور صحافی اور شاعر آغا شورش ؔکاشمیر ی کے یہ دو شعر بہت یاد آئے …

اِس سانحہ سے گنبد خضریٰ ہے، پُر ملال!

لخت ِ دِل رسولؐ  کی تُربت ہے ، خَستہ حال!

…O…

جِس کی نگاہ میں بنت ِ نبیؐ  کی حیا نہ ہو!

اُس قوم کا نوشتۂ تقدیر ہے زوال!

…O…

معزز قارئین! ۔ ’’ تحریک ِ نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ آغا حامد علی شاہ موسوی کا مَیں اُس وقت سے "Fan" ہُوں جب اُنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور کے آخری دِنوں میں اُن کی دعوت پر وزیراعظم ہائوس جا کر اُن سے ملاقات سے معذرت کرلی تھی اور جب چند دِن بعد وزیراعظم بے نظیر بھٹو بغیر اطلاع اور بغیر کسی پروٹوکول کے ، آغا جی سے ملنے کے لئے علی مسجد راولپنڈی پہنچ گئیں تو آغا جی نے اُن کے ایک ساتھی وزیر کو بتایا کہ ’’ مَیں خواتین سے ملاقات نہیں کرتا۔ محترمہ وزیراعظم سے کہیں کہ ’’وہ ، مسجد کے ساتھ ہی میرے گھر میں میری اہلیہ سے ملاقات کرلیں۔ مَیں یہیں اُن کے لئے دُعا کردوں گا‘‘۔ پھر میرے سرگودھا کے ایک صحافی برادرِ عزیز سیّد رضا کاظمی نے میری آغا جی سے ملاقات کروا دِی۔ 

2007ء میں تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سیکرٹری اطلاعات سیّد قمر حیدر زیدی ایک دانشور ، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کو ساتھ لے کر میرے گھر اسلام آباد آئے ۔ زیدی صاحب آغا جی کا یہ پیغام بھی لے کرآئے تھے کہ ’’ اثر چوہان صاحب! آپ سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ کا پیش لفظ لِکھ دیں !‘‘۔ ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘  (جنت کے چراغ) ’’ جنّت اُلبقیع ‘‘ اور اُس کے انہدام کی ایک مستند تاریخ ہے ۔ مَیں نے کتاب کا پیش لفظ لِکھ دِیا ۔اُس کے آخر میں سیّد عباس کاظمی نے لکھا کہ ’’ صحافی ، دانشور اور شاعر اثر چوہان صاحب مکتب اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں اور آئمہ اطہار کا بہت احترام کرتے ہیں ‘‘۔ 

معزز قارئین! ۔ 20 سال کے عرصے میں میری آغا حامد علی شاہ موسوی صاحب سے صرف تین ملاقاتیں ہُوئیں۔ (اِس لئے کہ مجھے میرے والد صاحب نے ہدایت کی تھی کہ ’’ درویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے‘‘۔ آغا جی سے میری آخری ملاقات 19 جنوری 2016ء کو ہُوئی ۔ میرا داماد معظم ریاض چودھری بھی میرے ساتھ تھے۔ آغا حامد علی شاہ موسوی واقعی درویش ہیں۔ اُنہوں نے حکومتِ ایران سے کبھی کوئی چندہ یا مالی امداد نہیں لی ۔ اُن کا مؤقف ہے کہ ’’ کسی بھی

 مذہبی جماعت کو سیاسی جماعت کا رُوپ نہیں دھارنا چاہیے‘‘۔8 شوال 23 جون 2018ء کو آغا حامد علی شاہ موسوی کی قیادت میں ’’تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ‘‘ کے علاوہ کئی اور شیعہ اور سُنی تنظیموں نے ’’انہدام جنّت اُلبقیع‘‘ کے سوگ اور احتجاج کے لئے پاکستان کے 70 کے قریب شہروں میں پُر امن مظاہرے کئے۔ ایک مظاہرہ واشنگٹن میں بھی ہُوا۔ 

عجیب بات ہے کہ ’’ 8 شوال /23 جون ( بروز جمعتہ اُلمبارک) کو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اردن کے شاہی محل میں اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ اِس پر مجھے یاد آیا کہ ’’ 18 مئی 2017ء کو سعودی عرب کے داراُلحکومت ریاض میں تقریباً34 مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس میں امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ مہمان خصوصی تھے ۔ اِس سے قبل صدر امریکہ نے ’’خادمِ حرمین شریفین ‘‘ سعودی بادشاہ سلمان بن عبداُلعزیز سے بغل گیر ہو کر اور تلوار پکڑ کر رقص کِیا۔ دوسرے دِن صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، اسرائیلی لیڈروں اور رومن کیتھولک کلیسا کے سربراہ پوپ فرانسس سے ملاقات کے لئے ’’تل ابیب ‘‘ اور ویٹی کن سٹی چلے گئے تھے۔ 

معزز قارئین! مَیں تو ایک عام اِنسان ہُوں اور ایک سادہ سا مسلمان ! ۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ کیوں نہ آئندہ ہمارا کوئی بااختیار صدر یا وزیراعظم ۔ ڈونلڈ ٹرمپ یا امریکہ کے کسی آئندہ منتخب صدر سے درخواست کر کے اُسے ’’ خادمِ حرمین شریفین‘‘ پر دبائو ڈالنے کے لئے منت ترلا کرے کہ ’’ وہ دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ’’ جنّت اُلبقیع‘‘ کو "Open Gardens" قرار دے دیں۔ 

1918ء میں علاّمہ اقبالؒ کی فارسی تصنیف ’’ رموزِ بے خودی ‘ ‘ شائع ہُوئی ۔ علاّمہ صاحب نے سیدۃ اُلنساء ، فاطمۃ اُلزہرا سے عقیدت کا اظہار کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … 

رشتہ ٔ  آئین ِ حق ، زنجیر ما ست!

پاس فرمانِ جنابِ مصطفی است!

…O…

ورنہ گردِ تُربتش گردید مے!

سجدہ ہا برخاکِ او پا شِید مے!

یعنی۔ ’’شریعت حقہ کے حکام میرے پائوں کی زنجیر بنے ہُوئے ہیں ، مجھے جنابِ مصطفی ؐ کے فرمان کا پاس ہے۔ ورنہ مَیں سیّدہ فاطمہ کی تُربت کے گرد طواف کرتا اور اُن کی قبر پرسجدہ ریز ہوتا‘‘۔ معزز قارئین! دُنیا بھر کے مسلمان ’’ حرمین شریفین‘‘اور ’’ خادمِ حرمین شریفین‘‘ کی دِل و جان سے عزت کرتے ہیں ۔ سعودی عرب میں بادشاہت ہو یا کوئی اور نظام وہ، تو اِسی آس میں رہتے ہیں کہ ’’ حج یا عمرے کے دَوران وہ جب بھی جائیں ، ’’ حرمین شریفین‘‘ کی زیارت کریں اور ’’ جنّت اُلبقیع‘‘ میں مدفون مقدّس اور معزز شخصیات کے مزاروں پر حاضری دیں ۔ خاص طور پر سیدۃ اُلنساء ’’ خاتونِ جنت‘‘ کی تُربت پر!۔