استنبول میں یہ کانفرنس کا پہلا روز تھا۔ لگ بھگ ۵۵ ممالک سے نمائندگان اس بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہونے تھے۔ کچھ آچکے تھے، کچھ آرہے تھے۔ شٹل بس سروس انہیں ایئرپورٹ سے ہوٹل لے کر آرہی تھی۔ آتے ہی چیک ان اور اس کے بعد کانفرنس کے پہلے روز کی تیاریاں شروع۔ ایک کمرے میں دو دو مہمان ٹھہرائے گئے۔ کانفرنس کے ہرمندوب کو ڈپلومیٹ کہہ کر مخاطب کیا جاتا۔ میرا روم میٹ ایک ہندوستانی تھا۔ ملاقات ہوتے ہی اسے جب معلوم ہوا کہ میرا تعلق لاہور سے ہے، تو بڑے ہی شوق سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اسے لاہور دیکھنے کا بہت اشتیاق ہے۔ البتہ دوسرے ہی لمحے اس کا یہ گلہ سننے کو ملا کہ آپ پاکستانی ویزا نہیں دیتے۔ میں حیران یہ سوچ کر کہ اس وقت ہندوستان میں ورلڈ کپ جاری ہے اور ویزوں کے معاملے میں پاکستانیوں کے لیے ہندوستان نے جس کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ایسے میں اس گلے کا اظہار؟ واللہ اعلم۔ کانفرنس کا آغاز ہوا تو دنیا بھر سے آئے ڈپلومیٹس سے ملاقات ہوئی۔ اگرچہ آنے والوں میں ہر عمر کے لوگ موجود تھے ۔ تاہم زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔ کانفرنس کا موضوع Women's Rights and Empowerment تھا۔ پاکستان سے آنے والے شرکاء مجھے زیادہ تر غیر سنجیدہ محسوس ہوئے۔ انگریزی زبان پر عبور نہ ہونے کے باعث کئی کو تقریر سے اجتناب کرتے بھی پایا۔ نسبتاً ہندوستانی ہم سے بہت آگے محسوس ہوئے۔ نہ صرف تقریر و تحریر بلکہ سفارتی پہلوئوں پر بھی انہیںبہت تگڑا پایا۔ کانفرنس کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ تقاریر کے بعد تمام ڈپلومیٹس کو سفارتکاری کے ذریعے گروپس بنانے اور پھر ایک ڈرافٹ ریزولوشن ترتیب دینے کا موقع دیا گیا۔ ریزولوشن تیار ہونے کے بعد اسے ہائوس کے سامنے پیش کیا جاتا اور پھر ووٹنگ ہوتی۔ جس بلاک کا ریزولوشن سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا، وہ کامیاب ٹھہرتا۔ کانفرنس میں ایک شریک ایسی بھی تھی جس کا تعلق افغانستان سے تھا۔ کم عمر مگر پر اعتماد ،جس نے نہ صرف کامیاب سفارت کاری کے ذریعے اپنا بلاک خود تشکیل دیا بلکہ اپنا ریزولوشن نمایاں اکثریت سے پاس کروانے کے بعد بہترین ڈیپلومیٹ کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ کانفرنس کے دوران سارے ٹائم مجھے جس بات پر حیرت ہوئی وہ یہ منظر تھا جس میں پاکستانی اور ہندوستانی شرکاء ہمیشہ اکٹھے بیٹھے نظر آتے۔ کھانا اکٹھے ، گپ شپ بھی اکٹھے ۔پاکستانیوں کی جانب سے بارہا یہ سوال کیا جاتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔جواب میںتردید کبھی سامنے نہ آتی ۔ بلکہ سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات پاکستانیوں کو یاد کروا دیے جاتے ۔ ایسے میں ماحول اگر کبھی گرم ہونے لگتا تو کوئی سکھ ساتھی بیچ میں اپنے چٹکلوں اور لطیفوں سے ماحول کوخوشگوار رکھنے کی کوشش کرتا۔ دوسری جانب ایک اور میز پر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے ڈپلومیٹس بیٹھے ہوتے۔ یہ بھی ہمیشہ اکٹھے ہی نظر آتے ۔ اگرچہ افریقی ممالک کی نمائندگی کرنے والے بہت سے موجود تھے،البتہ انہیں ساتھ بیٹھا دیکھ کر ان کے ہاں موجود ممالک کی تفریق نظر ہی نہیںآتی ۔ویسے مزاجاً میں نے افریقیوں کو خاصاجارح اور aggressive پایا، یہ لڑ پڑتے ہیں۔ پہلے روز ایک افریقی خاتون کھانا اچھا نہ ہونے پر مینیجمنٹ سے لڑ پڑی۔ اگلے روز ایک افریقی مجھ سے اس بات پر الجھ پڑا کے میں اردو زبان میں جو ایک پاکستانی سے بات کر رہا ہوں وہ شاید اس کے خلاف تھی۔ جب کہ ایسا قطعی نہیں تھا۔ کانفرنس کے آخری روز ہر ملک کی جانب سے کلچرل پرفارمنسز پیش کی گئیں۔ خیر ایسی سرگرمیوں میں ہم کہاں پیچھے رہتے ہیں۔ شغل میلہ جتنا مرضی کروالیں۔ساتھی پاکستانیوں نے جو کلچرل پرفارمنس پیش کی تو شرکاء اور مہمانوں کے چہرے مسکراتے نظر آئے۔ مہمانِ خصوصی میں مختلف ممالک کے سفیران اور وزراء شامل تھے۔ ان کی تقاریر ہوئیں۔ اسناد اور تصاویر کے بعد اگلے پڑائو کی تیاری شروع ہوئی۔اب وقت شہرِ استنبول کی سیر کا تھا۔ بس کے ذریعہ ہمیں استنبول کے ایک تاریخی مقام تک لیکر جایا گیا لیکن اُس مقام سے آگے کا سفرالگ سے طے کرنے کا اعادہ کیاتو نصیرالدین نصیر گولڑویؒ کا یہ شعر حسبِ حال پایا۔ بزمِ احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے مطمئن دل ہے بہت جب سے الگ بیٹھا ہوں ویسے آوارگی وہی ہے جو بے منزل ہو۔آپ چلتے جائیںاور کچھ نیا تلاش کرتے جائیں۔کہا جاتا ہے کہ پیدل چلنے کا بہت گہرا تعلق creativity سے بھی ہے۔ کیوں کہ آوارگی آپ کو نئے رستوں اور نئی جگہوں سے آشنا کرواتی ہے جس سے سوچ کو ایک نئی جہت اور خیال کو پنپنے کے لیے مختلف ماحول میسر آتا ہے ۔ 2020ء میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق وہ افراد زندگی میں زیادہ خوش پائے گئے ہیں جن کے ہاں پیدل چلنے کی عادت کے ساتھ نئے رستے اور نئے مقامات کی تلاش پائی گئی۔ ریبیکا سولنیٹ اپنی کتاب "A History of Walking" میں لکھتی ہے کہ ارسطو کے تعلیمی ادارہ میں ایسی راہداریاں تعمیر کی گئی تھیں جہاں اس کے طلباء دیر تک چلتے پھرتے فلسفے کی گتھیوں کو سلجھا سکیں۔اسی طرح ورڈزورتھ کی شاعری کا بھی بڑا گہرا تعلق چلنے سے ہے کیوں کہ وہ بھی یوں ہی آوارگی کے دوران اپنی شاعری قلم بند کرنے کا شائق تھا۔ معروف فلسفی روسو لکھتا ہے’’چلنے میں کچھ ہے جو میرے خیالات کو متحرک اور زندہ رکھتا ہے۔ اگر کسی ایک جگہ پر رہوں، تو شاید ہی کچھ سوچنے کے قابل ہوں۔ میرے دماغ کو ایک ترتیب میں رہنے کے لیے میرے جسم کا حرکت میں رہنا لازم و ملزوم ہے۔‘‘ (جاری ہے)