نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا، اگر پوری دنیا ایک ملک کی صورت اختیارجائے، تو استنبول اس کا دارالحکومت ہوگا۔ ٹھیک ہی کہا تھا۔ مگر یہ بات سن یا پڑھ کر شاید اتفاق کرنا مشکل ہو، البتہ اس شہر کو دیکھ کر یقین کرنا بہت آسان ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ پر محیط یہ شہر جسے کبھی قسطنطنیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا، بڑی وسعتوں اور محبتوں والا شہر ہے۔ یہ شہر اپنے اندر ہر آنے والے کو سمو لینے کی اہلیت اور خاصیت رکھتا ہے۔ استنبول لینڈ کرتے ہی جس بات کا احساس سب سے پہلے ہوا وہlanguage barrier تھا ۔ لوگ صرف ترک زبان سمجھتے تھے۔ انگریزی نہ ہونے کے برابر تھی۔ حتی کہ ٹیکسی ڈرائیور بھی گوگل ٹرانسلیٹر کے ذریعہ بات سمجھتے اور سمجھاتے نظر آئے۔ ہوٹل کی لو کیشن بھی فون ہی کہ ذریعے ڈرائیور کو سمجھائی۔چیک اِن کے بعد آرام تو کیا کرنا تھا، استنبول کے گلی کوچوں کا رخ کیا۔ تہیہ کیا تھا کہ ٹرانسپورٹ کا استعمال کم سے کم اور قدموں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا ہے۔ ہوٹل کے قریب موجود ایک پارک کا رخ کیا۔ پارک میں موجود ترک تہذیب اور معاشرت اس جگہ کو میرے لیے خاص بنا رہی تھی۔غالباً عصر کا وقت تھا۔ خواتین اپنے گھروں سے نکل کر پارک کا رخ کر تی نظر آئیں۔ گفت و شنید میں مصروف ترکی کی مخصوص چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔چھوٹے کپوں میں میرون رنگ کی یہ چائے پہلی چسکی میں کڑوی محسوس ہوتی ہے ۔البتہ اگلے ہی لمحے آپ اپنے آپ کو پورا کپ ختم کرنے سے روک نہیں پاتے۔ پارک کے دوسری جانب سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کا ہجوم مختلف بنچوں پرٹولیوں کی صورت میں بیٹھا نظر آیا۔ ایک جانب استنبول کی عمر رسیدہ خواتین اور دوسری جانب نوجوان، اپنی اپنی زندگی میں گم، فکرسے بے نیاز، خوش گپیوں میں مشغول ۔۔۔اور ان سب کے درمیان میں، بیٹھا اس منظر کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں گم تھا، کیوں کہ کسی معاشرہ کی ایسی تصویر دیکھنا تو دور کی بات، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ سوسائٹی ایسے بھی دِکھتی ہے۔ لاشعوری طور پر ذہن موازنہ تو کرتا ہے اور اس موازنہ میں مجھے اپنے گھر کے نزدیک موجود پارک ہمیشہ خالی ہی نظر آئے ۔ استنبول کے ماحول کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کسی بھی قسم کی فرسٹریشن محسوس نہیں ہوتی۔ حالانکہ مہنگائی کا سامنا انہیں بھی بہت ہے۔ ڈالر دن بدن ان کے ہاں بھی مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے ، لیکن لوگوں کے مزاج میں وہ چڑچڑا پن دیکھنے کو نہیںملا۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی سوشل لائف ہے۔ یہ طرزِ زندگی کہیں نا کہیں catharsis کا سبب بنتی ہے ، جو کہ باہمی میل جول، گفتگو اور شیئر کیے بغیر ممکن نہیں۔ ایک اور خاص بات کہ وہاں لوگوں میں چلنے کی بہت عادت ہے۔ استنبول کے شہری آپ کو ہمیشہ جوگرز پہنے نظر آئیںگے۔اگرچہ استنبول کا پبلک ٹرانسپورٹ قابل تحسین ہے،تاہم لوگوں کا رجحان چل کر سفر طے کرنے کی جانب بہت دکھائی دیا۔ اگلا روز جمعہ تھا۔ خواہش اور کوشش تھی جمعہ کی نماز بارگاہِ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے متصل مسجد میں ادا کروں۔مسجد سے ہوٹل کا فاصلہ کم و بیش ۳ کلومیٹر تھا۔ چل کر جانے کا فیصلہ کیا۔نبی پاک ﷺ کے جلیل القدر صحابی کی آخری آرام گاہ جس علاقہ میں واقع ہے اسے ’’ایوپ سلطان‘‘ کہا جاتا ہے۔یہاں ایک گائیڈ سے بات کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ جب سلطان مَحمد فاتح نے قسطنطنیہ (استنبول)فتح کیا تو ان کے ایک استاد کو خواب میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک کی نشان دہی کا اشارہ ہوا۔ یہ بات جیسے ہی عثمانی خلیفہ تک پہنچی ، مسجد و مزار کی تعمیر کا حکم صادر کیا گیا۔ ترک قوم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو محبت سے ایوپ سلطان کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ آپ استنبول کے اُس علاقہ میں داخل ہوں، تو جسم کا ہر حصہ محسوس کرتا ہے جیسے واقعی کس عظیم سلطان کی بارگاہ میں حاضر ی مقصودہے۔ آپ کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ سر تا پا وجود ادب میں جھک جاتا ہے۔ ماحول میں موجود عشق ومحبت کی سرمستیاں غالب آجاتی ہیں۔مسجد کے قریب پہنچا تووہاں کے باسیوں میں وارفتگی کی شدت دیکھ کر دل خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوا۔عرس کا سا سماں تھا۔ ایسے لگتا تھا، جیسے وہاں موجود ہر بزرگ آپ کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ کئی سن رسیدہ خواتین کو میٹھا تقسیم کرتے دیکھا۔وہ میری اور میں ان کی زبان سمجھنے سے قاصر تھے۔ البتہ محبت کی زبان الفاظ کی پابند تھوڑی ہوتی ہے۔ وہ تو اس سب سے بے نیاز ہے۔ اسے سمجھنا کہاں مشکل ہے۔ وہاں موجود بزرگ حضرات آتے جاتے کبھی محبت سے کاندھے کو تھپکی دیتے تو کبھی ماتھے کو بوسہ دیکر مسجد کے صحن کی راہ دیکھلا دیتے۔ سب عجیب تھا۔ جنت نظیر ۔ مسجد کے صحن میں داخل ہوا تو معلوم پڑا کہ نمازِ جمعہ کی وجہ سے مزار کے اندر داخلہ ممنوع ہے۔ ایک جانب لوگوں کا ہجوم پایا۔ اس ہجوم کا چہرہ ایک سنہری کھڑکی کی جانب تھا ۔ لوگ یہاں کھڑے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اپنی مناجات پیش کر رہے تھے۔ اس ہجومِ تشنہ لباں میں میں بھی شامل ہوا تو دیکھا کہ اس کھڑکی سے روضہِ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی زیارت کی جا رہی ہے۔ یہ سب یہاں آپؓ کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔ جمعہ کی نما ز میں ابھی گھنٹہ باقی تھا کہ مسجد اندر سے بھر چکی تھی۔ مسجد کے صحن میں بڑی مشکل جگہ ملی۔ موجود لوگوں میں کثیر تعداد نوجوانوں کی پائی۔ان کے چہرے کے تاثرات یہی بتا رہے تھے کہ وہ جمعہ کا خطبہ بہت انہماک سے سن رہے ہیں۔مسجد کے باہر بھی ایک کشادہ صحن موجود تھا جہاں خواتین کی بڑی تعداد مختلف جگہوں پر بیٹھی تھیں، جو شاید وہاں صرف خطبہ سننے کے لیے موجود تھی۔ جمعہ کا خطبہ ترکش اور عربی دونوں زبانوں میں ادا کیا گیا۔درودوسلام اُن کی تمام عبادات کا خاصہ ہے۔ جمعہ کے روز بھی تمام فرائض درود و سلام کی خوشبوکے حصار میں نظر آئے۔ نماز کے بعد ایک بار پھر لوگوں کو بڑی چاہت، خلوص اور محبت کے ساتھ وہاں کی مخصوص میٹھائی تقسیم کرتے پایا۔ (جاری ہے)