ہوسکتا ہے آصف محمود کی یہ کتاب پڑھنے کے بعد میری طرح آپ پر رائیگانی اور پچھتاوے کے کئی موسم بیت جائیں۔باب چہارم پولیس پاکستان کی یا ملکہ وکٹوریہ کی؟ پڑھتے ہوئے مجھے سادہ لوح بے بے جی یاد آئیں زندگی جنہوں نے دور افتادہ گاؤں میں گزاری وہ پولیس کی وردی میں کسی کو دور سے دیکھ کر ہی خوفزدہ ہوجاتی تھیں۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پولیس سے واسطہ پڑنا ایک عام آدمی کے لیے آج بھی ڈروانا خواب کیوں ہے ؟کیوں یہاں کے فوک وزڈم محاوروں اور گیتوں میں تھانے کچہری سے پناہ مانگی گئی ہے حالانکہ یہ تو عوامی مسائل کو حل کرنے کے ادارے ہیں۔ اس کتاب کے ایک ایک صفحے پر آپ کو آنکھیں کھول دینے والے وہ تاریخی حقائق ملیں گے جو لائبریریاں چھاننے کے بعد ہاتھ آتے ہیں۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ پاکستان کے بیوروکریسی کے دیسی جینٹل مینوں ؎کے احساس برتری پر مبنی بیمار رویوں کے پیچھے کارفرما نفسیات جان جائیں گے ۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد جب آپ کسی پنج ستارہ ہوٹلوں کے گیٹ کیپر کو اونچا شملہ پہنے دروازہ کھولتے دیکھیں گے تو آپ کو احساس کمتری کی ماری اپنی قوم پر شرمندگی ہوگی۔ جناح کیپ والا بیرا آپ کے سامنے چائے پانی لا کے رکھے گا تو آپ کو اپنے آپ سے شرم آئے گی۔ کتاب کو پڑھ کے آ پ جان جائیںگے کہ جون جولائی کی گرمی میں جھوٹے چھوٹے قصباتی شہروں کی کچہریوں میں بھی وکیل بھائی کالے رنگ کا کوٹ پینٹ پہنے بند گلوں میں ٹائیاں لٹکائے ایک مسلسل عذاب میں کیوں دکھائی دیتے ہیں۔کیوں ان کا لباس آج تک موسم کی شدت سے ہم آہنگ نہ ہوسکا۔ آصف محمود کی تازہ تصنیف، پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات میں پڑھ کے آپ کے سامنے ایک آئینہ خانہ کھل جائے گا جس میں آپ اپنی حکومتوں، سرکاری انتظامیہ کی عام شہری مخالف وارداتوں کا پس منظر جان سکیں گے۔سماج کے اجتماعی اور انفرادی احساس کمتری کے پیچھے تحریر غلامی کی داستان پڑھ سکیں گے کہ پاکستان کی آزادی کے 75 سال کے بعد بھی ہماری حیثیت ان ذہنی غلاموں کی سی کیوں ہے جو فکری طور پر کبھی بڑے نہیں ہوتے؟کیوں ہم اپنی شناخت پر شرمندہ ہیں اور اپنے تہذیبی اثاثوں کو اپنانے سے گھبراتے ہیں ۔جو نظام ہمارے ہاں نافذ ہے وہ برطانوی نوآبادیاتی نظام سے اخذ کیا گیا ہے۔قانون آزادی ہند 1947 کے تحت جن قوانینِ کو ہم پر مسلط کیا گیا ہم آج تک ان سے سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ہمارے ملک کے ہزاروں قوانین انگریزوں کے وضع کیے ہوئے ہیں۔ایک آزاد ملک میں غلام قوم کے لیے بنائے جانے والے قوانین ان کی آزادی کی توہین ہے۔ انگریز جب برصغیر پر حکمران ہوا تو اس نے ایسا نظام بنایا جس میں برصغیر کے مقامی شخص کو احساس دلایا گیا کہ تم حکمران جماعت سے کمتر ہو۔یہ نظام شہریوں کے لیے نہیں تھا بلکہ غلاموں اور رعایا کے نوآبادیاتی نظام کی بنیاد خامی یہی ہے انسان کو شہری نہیں غلام سمجھتا ہے۔یہ وہ نو آبادیاتی ورثہ ہے آزاد ہوتے ہوئے بھی ہم نے اپنے سینے سے لگائے رکھا۔پاکستانی بیوروکریسی کی اکیڈمیاں یہاں آج بھی دیسی گورا صاحب پیدا کرتی ہیں۔ سی ایس ایس کرنے والوں کے دماغوں میں احساس برتری کا خناس ڈال کر انہیں اپنے ہی ہم وطنوں پر آقا مسلط کیا جاتا ہے اور اس واردات کو سول سروس اور سول سرونٹ کی اصطلاحات کا نام دینا مضحکہ خیز ی ہے۔برصغیر کی سیاسی قانونی اور ریاستی تاریخ برطانوی نوآبادیاتی سے شروع نہیں ہوتی۔اگر اٹھارویں صدی میں کل دنیا کی صنعتی پیداوار کا 25 فیصد مغل سلطنت پیدا کر رہی تھی تو یہ کارنامہ بغیر ایک منظم معاشرت سیاسی اور سماجی استحکام کے ممکن نہیں تھا۔مسلمانوں کی ایک تہذیب اور تاریخ تھی سامراجی بندوبست کے تحت ہمیں اس تہذیب پر شرمندہ ہونا سکھایا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ کتاب پڑھ کر آپ کے اندر ضمیر کی خلش یہ سوال ضرور اٹھائے۔ کیوں دائروں میں،ہم نے بسر کی تمام عمر یہ کس کا عہد تھا جو نبھانا پڑا مجھے قانون کے اکابرین کہتے ہیں کہ آصف محمود نے اس کتاب میں ہمارے نظامِ قانون کے نقائص اور ناکامی کو نوآبادیاتی فکر کے تناظر میں پہلی بار موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کتاب کے سات ابواب ہیں جن میں مدلل اور مؤثر انداز میں بیان کئے گئے تاریخی حقائق اہل دل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتے ہیں۔کتاب کے آخری باب یہ احساس کمتری کب تک ؟ میں مصنف لکھتے ہیں ۔ "اس نفسیاتی گرہ کو کھولنا ہوگا یہ بات شعوری طور پر سمجھنا ہوگی کہ ہم اب سلطنت برطانیہ کے نوکر نہیں ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ہماری تہذیب اور ثقافت سے وابستہ قدریں ہمارے لئے باعث شرم نہیں۔ ہمیں ابEnglish Etiquette for indian Gentlmen سے تہذیب کشید کرنے کی ضرورت نہیں "آصف محمود نے پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات کا بڑے عمیق انداز میں جائزہ لیا ہے۔ا س کتاب کے مرتب کرنے میں ان کی تحقیق اور محنت کتاب کی ہر سطر میں نظر آتی ہے۔اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان نے دنیا کے سب سے بڑی کچی آبادی کے سوریج اور سینی ٹیشن کے نظام پر کام کیا ۔ بدبودار گلیوں میں رہنے والے لوگوں کو صفائی اور ستھرائی کا احساس دلایا کسی نے سوال پوچھا کہ آپ کا اب تک کا سب سے اہم کام کیا ہے ؟ ڈاکٹر اختر حمید خان نے کمال جواب دیا کہا کہ میں نے کچی آبادیوں میں رہنے والوں میں بدبو کا احساس پیدا کیا ہے ۔ ہمارے فاضل مصنف نے بھی پس قانون لکھ کر تہذیبی اور نفسیاتی گرہوں میں الجھی ہوئی قوم کو نوآبادیاتی نظام کے اثرات سے ہماری نسلوں تک پہنچنے والی اس بدترین احساس کمتری کی بدبو سے آشنا کر دیا ہے جو ہجوم کو صحیح معنوں میں قوم نہیں بننے دے رہی۔ اس اہم کام کے لیے آصف محمود کا شکریہ ہم سب پر واجب ہے۔شکریہ کی عملی شکل یہ ہے کہ آپ اس کتاب کو پڑھیں اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے دیں اور اس کے مندرجات کو گفتگو کا حصہ بنائیں۔ہمیں اس سوچ کو تحریک بنانے کی ضرورت ہے کہ ایک آزاد ملک میں غلاموں کے لیے بنائے گئے قوانین کی کوئی گنجائش نہیں۔ غلامی کی یہ بساط اب لپیٹ دینی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭