تین دسمبر معذوروں کا عالمی دن تھا آپ نے اس حوالے سے کچھ لکھا؟ اس نے کوئی اور بات کرتے ہوئے ایسے ہی مجھ سے پوچھ لیا۔ میں شرمسار ہوگئی، جانتی تھی کہ وہ خود ایک خاص بہت ہی خاص بہادر لڑکی ہے جو زندگی کی تمام تر کمیوں کے باوجود ایک جنگجو کی طرح زندگی گزار کر ہم جیسے ہزاروں لوگوں کو انسپائر کررہی ہے ۔ اس برس تو کچھ نہیں لکھا ہاں پچھلے سال لکھا تھا کالم ایسے سپیشل پرسنز کے متعلق جو اپنی معذوری کے باوجود زندگی کو بڑے حوصلے سے بہترین انداز میں جیتے ہیں اور کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک پہلو ہے کہ ہم جیسے لوگ اللہ کی دی ہوئی کمی کو قبول کر کے زندگی کو حوصلے سے جینے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن اس راستے میں بظاہر نارمل اور مکمل لوگ اپنی منفی سوچ کے ذریعے ہمارے لیے کتنی تکلیف کا باعث بنتے ہیں کبھی اس پر لکھیں وہ فوراً بولی : ہم جیسے لوگوں کو معاشرہ کبھی بھی قبول نہیں کرتا اور لوگ ہم سے زندہ رہنے کا حق بھی چھیننا چاہتے ہیں ۔وہ قدرے تلخی سے بولتی رہی ۔ کبھی اس حوالے سے بھی لکھیں کہ لوگ اتنے سنگدل کیوں ہیں اور اپنی زبانوں پر کنٹرول کیوں نہیں رکھتے۔ ایک جملے ہی میں دوسرے کی پوری زندگی کو سوال بنا دیتے ہیں۔ میں نے پولیو کی معذوری کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی۔ اپنے گھر سے روزانہ کالج بہت مشکل سے جایا کرتی تھی مگر ہمت نہیں ہاری۔ میں نے بی ایس کمپیوٹر سائنس کیا ۔ میری خواہش تھی کہ میں اپنے پاوں پر کھڑی ہو جاؤں۔ مجھے احساس تھا کہ لوگ میری معذوری کی وجہ سے مجھے بوجھ نہ سمجھنے لگیں ۔ میں نے اپنے دل میں عہد کیا تھا میں ان شااللہ ہر صورت معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑی ہوں گی۔ بی ایس کمپیوٹر سائنس کرنے کے بعد میں نے ڈیجیٹل سکلز سیکھے۔ میں جدید دنیا کا علم سیکھنا چاہتی تھی اور جدید دنیا کے ساتھ چلنا چاہتی تھی۔آج اللہ کا کروڑوں بار شکر ہے کہ میں ڈیجیٹل سکلز میں کام کرکے اپنے گھر والوں کا بوجھ بھی اٹھارہی ہوں۔مجھے افسوس ہے کہ میری جدوجہد کے باوجود معاشرہ مجھے بطور ایک مکمل فرد کے قبول نہیں کرتا۔ کیوں لوگ چاہتے ہیں کہ مجھ پر نارمل زندگی کے دروازے بند کر دیے جائیں ۔ ہم لوگ گھروں سے نہ نکلیں، تفریح نہ کریں۔ میں اور میرے جیسے دوسرے لوگ جو زندگی میں کسی نہ کسی معذوری سے گزر رہے ہیں لوگوں کا رویہ، لوگوں کے منفی جذبات، حوصلوں کی جڑیں کاٹتے ہیں۔ اپنا ایک واقعہ سناتی ہوں : میں نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور ڈیجٹل سکلز سیکھ کر دن رات کام کیا اور اس سے اتنے پیسے کمالیے کہ کہ میں نے اس کو رئیل اسٹیٹ میں انوسٹ کیا۔ میں نے ایک پلاٹ خریدا۔ جسے ری سیل کرکے میں پیسے کو دوبارہ انوسٹ کرنا چاہتی تھی ،اس مقصد کے لئے میں رئیل اسٹیٹ کے آفس میں اپنی والدہ کے ساتھ گئی۔ہم اپنی گاڑی پر گئے۔ہمارے پاس پلاٹ کے سب ڈاکومنٹس تھے مگر سکیورٹی گارڈ کا رویہ بہت ناروا تھا اس نے مجھے اندر جانے سے روکا اور کہا کہ یہاں آپ کسی سے امداد لینے آئی ہیں؟ میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گئی۔باقی تمام لوگ آجا رہے تھے مجھے صرف میری معذوری کی وجہ سے روکا گیا۔میری تعلیم میری تمام جدوجہد سب خاک میں پڑی تھی اور وہ صرف مجھے میری ویل چئیر کے ذریعے جانچ رہا تھا ۔ مجھے جذباتی طور پر شدید دھچکا لگا۔ وہ بولتے بولتے خاموش ہوگئی ۔میں اس بہادر لڑکی کی شناخت کو چھپانے کے لئے کالم میں فرضی نام شائستہ رکھ دیتی ہوں۔شائستہ کی تمام باتیں سچ تھیں اور میرے پاس سوائے افسوس اور شرمندگی کے ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔اس حوالے سے میں نے کچھ اور اسپیشل افراد سے بھی اپنے تجربات کی سانجھے کیے کہ ہمیں دوسروں کے بہت منفی جذبات سننے کو ملتے ہیں ۔اگر ہم فیملی کے ساتھ کسی شاپنگ مال میں خریداری کرنے چلے جائیں تو منہ پھٹ لوگ جاتے جاتے جملے کی صورت ایک گند ہم پر اچھال دیتے ہیں کہ ان لوگوں کو یہاں آنے کی آخرضرورت ہی کیا ہے یہ گھر کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔ سوال یہ ہے کہ شتر بے مہار معاشرے کی ذہنی تربیت کیسے ہو جنہیں اپنی زبانوں پر قابو نہیں ۔جنہیں بولتے وقت الفاظ کے اچھے چناؤ کی اہمیت نہیں سکھائی گئی۔ رسول رحمتﷺ نے فرمایا وہ مسلمان نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں۔ کس طرح لوگوں کو سمجھایا جائے کہ سوچ کر بولیںاور برچھیوں والے الفاظ منہ سے نکالنے سے گریز کریں جو سامنے والے انسان کو جذباتی اور روحانی طور پر لہو لہان کردیں۔ ایک ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے شخص کا بھی زندگی پر اتنا ہی حق ہے جتناآپ کا ۔اسے بھی تفریح کرنے، ہنسنے بولنے اور آنے جانے آنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔ کاش والدین اور اساتذہ بچوں کو یہ سکھا سکیں کہ خوامخواہ کے تبصرے کرکے دوسروں کی زندگیوں کو اجیرن نہ کریں۔ افسوس کہ تربیت کرنا والدین اور درسگاہوں نے زمانہ ہوا چھوڑ دیا ہے۔اب تربیت یا تو سوشل میڈیا کرتا ہے یاٹی وی چینلز ۔ ان میں بھی نیوز میڈیا اور ڈرامہ انڈسٹری ہے جن کا قبلہ و کعبہ ریٹنگ ہے۔ ریٹنگ کا طواف کرتے ہوئے معاشرے کو تمیز اور تہذیب نہیں سکھائی جاسکتی۔اس کالم کے ذریعہ سے گزارش کروں گی کہ آپ جو کوئی بھی ہیں اپنے دل سے عہد کریں کہ زندگی میں جب بھی اور جہاں بھی آپ کا سامنا کسی اسپیشل پرسن سے ہو آپ اپنے رویے سے ان کا احترام کریں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھیں۔اس حدیث کو ذہن میں رکھیں کہ اچھی بات کہو یا خاموش رہو۔ سوچیں کہ آپ کا طنز میں لتھڑا ہوا ایک سہ حرفی جملہ بھی کسی کی پوری زندگی کی عمارت ہلا کر رکھ سکتا ہے۔ لاپرواہی سے کیا گیا کوئی تبصرہ زندگی کے سفر میں پوری ہمت اور استقامت کے ساتھ شریک کسی سپشل پرسن کو جذباتی طور پر لہولہان کر سکتا ہے۔ یاد رکھیں ایسے صابر اور شکر گزار دل سے نکلی ہوئی آہ خود آپ کو زندگی کی بہت سی نعمتوں سے محروم کر سکتی ہے۔