اس وقت عظیم تر اسرائیل کے لیے کوششیں جاری ہیں ،جس کے لیے اسرائیل نے دنیا کی بڑی بڑی پر کشش کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے جن میں بعض کمپنیاں یہودیوں کی ذاتی ملکیتی ہیں ۔ان مالیاتی اداروں کی ملکیت دیکھ کر آپ اسرائیل کے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اس وقت امریکہ کے تما م بینکس اور انشورنس کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں،دنیا میں سول ایوی ایشن کے شعبہ میں امریکا کا حصہ 83فیصد ہے،اس83فیصد کا90فیصد حصہ یہودیوں کے پاس ہے،دنیا کے کسی بھی حصے سے جو ہوائی جہاز اڑتا ہے وہ ہوائی جہاز کسی نہ کسی یہودی کمپنی کی ملکیت میں ہوتا ہے۔تعلیم یہودیوں کا تیسرا بڑا کاروبار ہے، امریکا کی 90فیصد یونیورسٹیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں،ان یونیورسٹیوں کے تمام بڑے شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں ۔ پچھلے40برسوں سے سائنس میں سب سے زیادہ نوبل انعام یہودیوں نے حاصل کئے۔طب یہودیوں کی زندگی کا چوتھا مقصد تھا،اس وقت دنیا کی 70فیصد دوائیاں یہودی کمپنیاں بناتی ہیں،اگر آج یہودی صرف انسولین بنانا بند کر دیں تو دنیا میں ذیبا بیطس کے مریض شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں۔یہودیوں نے ان چار شعبوں میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مزید تین شعبوں کو اپنا مقصد بنایا۔پہلے نمبر پر انہوں نے میڈیا۔دوسرے نمبر پر دفاع اور تیسرے نمبر پر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔یہودی اب ان تینوں شعبوں میں بڑی تیزی کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت امریکا کا سارا میڈیا یہودیوں کے کنٹرول میں ہے، اسی بنا پر آپ کو امریکہ میڈیا سے اسرائیل کے خلاف کوئی بات سننے کو نہیں ملتی ۔امریکی میڈیا پر کنٹرول کے بعد اب انہوں نے یورپ اور مشرق بعید کے میڈیا کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ہے،اسلامی دنیا کے ٹیلی ویژن چینلز ریڈیوز اور اخبارات، جرائد میں بھی یہودیوں نے سرمایہ کاری شروع کررکھی ہے۔اس وقت دنیا میں ٹیلی ویژن کے آلات بنانے کی11بڑی کمپنیاں ہیں، ان 11 کمپنیوں میں سے 9کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں،آپ دنیا کے کسی کیمرے کو لے لیں،یہ کیمرہ کسی نہ کسی یہودی کمپنی سے نکلا ہو گا،تمام ریکارڈنگ ٹیپس،سارا آڈیو سسٹم،ٹیلی ویژن پروگرام،مصنوعی سیارے کے ذریعے نشر کرنے والے آلات اور دنیا کی تمام ڈش کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ میڈیا کے بعد دفاع اسرائیلیوں کا مقصد تھا،اسرائیل نے بڑے پیمانے پر دفاعی پیداوار میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے،اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی آلات امریکا میں بنتے ہیں، یہودیوں کی کوشش ہے کہ امریکا کسی نہ کسی طریقہ سے یہ دفاعی آلات اسرائیل کو دیدے اور اسرائیل ان دفاعی آ لات کی بڑی بڑی فیکٹریاں لگا کر دنیا میں بڑے پیمانے پر تجارت شروع کر دے تاکہ آنے والے دنوں میں دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی شخص بندوق،رائفل یا بم خریدے تو یہ مختلف ذریعوں سے ہوتی ہوئی اسرائیل تک پہنچ جائے۔ کینہ شتر مشہور ہے کہ اونٹ بڑا کینہ پرور اور غصیلا جانور ہے۔ اگر یہ کسی سے بگڑ جائے تو اس کی صورت اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتا ہے اور موقع ملنے پر اس شخص کو نقصان پہنچائے بغیر نہیں رہتا۔ مگر یہودیوں کا کینہ اس سے بھی برا ہے ۔ ایڈولف ایچ مین 1906 ء میں سولنگن جرمنی میں ایک کیلونسٹ پروٹسٹنٹ خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین ایڈولف کارل ایچ مین، ایک بک کیپر، اورماں ایک گھریلو خاتون تھی۔ ایڈولف ایچ مین سکول میںایک نالائق بچہ تھا ، وہ تعلیم مکمل نہ کر سکا ، جس کے بعد1914ء میں آسٹریا میں اپنے والد کی کان کنی کی کمپنی کے لیے کام میں لگ گیا، بعد ازاں 1927 ء میںتیل کے سیلز مین کے طور پر کام کیا، مگر ہ جلد ہی کاروبار سے اکتا گیا ،جس کے بعداس نے 1932ء میں نازی پارٹی اور ایس ایس سیکورٹی دونوں میں شمولیت اختیار کی اور1933ء میں جرمنی چلا گیا،جہاں اسے یہودی امور کے لیے ذمہ دار محکمہ کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔جلد ہی اس کا ہٹلر کے چند بااعتماد ساتھیوںمیں شمار ہونے لگا ،ایچ مین نے جنوری 1942ء میں وانسی کانفرنس میں شرکت کر کے یہودی نسل کشی ’’ یہودی مسئلے کا حتمی حل ‘‘ کی منصوبہ بندی کی ۔ 1933 ء سے 1945 ء کے درمیان سرکاری سرپرستی میں یہودیوں کا منظم قتل عام ہوا،مگر’’یہودی مسئلے کا حتمی حل‘‘ کے تحت 1941 ء سے 1945 ء تک یورپ کے یہودیوں کا منصوبہ بند ی سے اجتماعی قتل کیا گیا۔اسے یہودی ہولوکاسٹ کہتے ہیں ،جس میں 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا۔اس کا سربراہ یہی ایچ مین تھا ۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ایچ مین کو امریکی افواج نے پکڑ لیا مگر وہ امریکی افواج کو چکمہ دینے میں کامیاب ٹھہرا ،اور1946ء میں حراستی کیمپ سے فرار ہوگیا۔ جس کے بعد اس نے اپنی شناخت چھپانے کا فیصلہ کیا اور ارجنٹائن جا کر چھپ گیا ۔1946ء سے لیکر 1960ء طویل عرصہ تک وہ ارجنٹائن میں مقیم رہا ۔ اس دوران اسرائیل کا قیام ہوا اور اسرائیل نے ایک طاقتور انٹیلی جنس موسادبھی تشکیل دے دی ۔1957ء کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو مغربی جرمنی نے کچھ کاغذات دیئے، جن میںایچ مین کی ارجنٹائن میں موجودگی کی اطلاعات تھیں۔دستاویزات میں بتایا گیا کہ ایچ مین نے گرفتاری سے بچنے کے لیے نہ صرف شناخت تبدیل کر رکھی ہے بلکہ اس نے اپنا تخلص بھی تبدیل کر رکھا ہے ۔ ان دستاویزات کی بنیاد پر اسرائیلی ایجنسی موساد کے کچھ ایجنٹوں نے ارجنٹائن جانے کا پروگرام بنایا ۔ارجنٹائن کی سپین کے خلاف اپنے انقلاب کی 150ویں سالگرہ کی تقریب اور ملک میں سیاحوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موساد کے ارکان نے خفیہ طور پر ارجنٹائن کا سفر کیا۔جہاں انھوں نے 3برس چھان بین کی،کئی لوگوں کے انٹرویو کیے ،بعض کو شک کی بنیاد پر اغوا بھی کیا مگر وہ اصل ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے۔موساد کے ایجنٹوں نے ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے سان فرنینڈو کے علاقے کی ایک ایک انچ کی چھان بین کی ،بالآخر 1960ء میں ’’ریکارڈو کلیمنٹ‘‘ نامی شخص کی رہائش گاہ کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے ،یہ رہائش گاہ ہی ایڈولف ایچ مین کی تھی ۔موساد کے ایجنٹوں نے ایچ مین کو نشہ آور ادویات پلائی اور بیہوشی کے عالم میں اسے اغوا کر لیا جس کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے ایچ مین کو ایک سویلین طیارے میں رکھا اورافواہ پھیلائی کی کہ اسرائیلی ائیر لائنز کے ملازم کو حادثہ پیش آیا ہے، جس کے نتیجے میں اسے سر میں چوٹ لگی ہے۔ بعد ازاں وہ اسے لیکر اسرائیل پہنچ گئے ۔ ارجنٹائن کو جب اس ساری کارروائی کا علم ہوا تو اس نے ملزم کی واپسی کا مطالبہ کیا مگر اسرائیل نے انکار کر دیا ۔11 اپریل 1961ء کو اسرائیل نے ایچ مین پر مقدمہ چلایا۔ ایچ مین پر جنگی جرائم کے ارتکاب سے لے کر انسانیت کے خلاف جرائم کی فرد جرم عائد کی ۔اس دوران ملزم کو حق دفاع دیا گیا مگر وہ حق دفاع ویسا ہی تھا ،جیسا صدام حسین کو امریکیوں نے دیایا بھٹو کو پاکستانی عدالتوں نے ۔جس کے بعد 15 دسمبر 1961ء کو ایچ مین کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور31 مئی 1962 ء کو پھانسی دے دی گئی ۔ اسرائیلی حکومت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایچ مین کی لاش کو جلاکر اس راکھ کو مٹی میں دفن کرنے کی بجائے سمندر میں پھینک دیا گیا ۔ یہ اسرائیلیوں کی کینہ پروری ہے ۔