شروع شروع میں دریائے ستلج کے سیلاب کو کسی نے سنجیدگی سے نہ لیا، بھارت کی طرف سے پانی چھوڑا گیا تو مختلف علاقوں کے لوگ خوشی سے دریا کی طرف چلے گئے، وہاں کسی نے دریا کو پھول پیش کئے تو کسی نے پکنک منائی، یہ اس بنا پر تھا کہ ستلج میں کافی عرصے بعد پانی آیا ہے، خوشی کی بات اس حوالے سے بھی تھی کہ ستلج پیاسا تھا اور ستلج کی تہذیب پیاس سے مر رہی تھی، اسی اثنامیں پانی کے آنے پر خوشی کے اظہار پر حیرت نہیں ہوئی، ایک واقعہ یہ بھی ہوا کہ بہاولنگر کے علاقہ میں ستلج کا پانی قدیم دریائے ہاکڑہ کی گزرگاہ تک پہنچا تو یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک ہزار سال کے بعد ہاکڑہ کو دریا کا پانی نصیب ہوا ہے، بعد میں پانی کی مقدار بڑھتی گئی اور نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا گیا، نقصان اس بناء پر بھی ہوا کہ ستلج کے خشک ہونے پر لوگوں نے ستلج کو آبادیوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا، دریا کی قدرتی گزرگاہیں بند ہونے لگیں، یہ فطری بات ہے کہ پانی کا راستہ بند کیا جاتا ہے تو وہ خود الگ راستہ بنا لیتا ہے، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دریائے ستلج میں اسلام اور گندھا سنگھ ہیڈ ورکس پر بدستور جگہ جگہ سیلاب ہے، گزشتہ روز پانی کا بہائو ڈیڑھ لاکھ کیوسک تھا، سلیمانکی میں بھی سیلاب موجود ہے، ستلج کا سیلاب قصور تک جا پہنچا ہے اور قصور کی انتظامیہ دیہات خالی کرا رہی ہے۔ ستلج میں سیلاب بڑھتا جا رہا ہے، ستلج میں ہونیوالی تباہی کو دیکھتے ہوئے دوسری جانب پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں تربیلا اور کالا باغ کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، چشمہ اور تونسہ میں بھی انتظامیہ الرٹ ہوئی ہے۔دریائے چناب اور دریائے سندھ سے بھی فلڈ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں، اسی بنا پر سرگودھا، ڈیرہ غازیخان، بہاولپور، ملتان، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان کی انتظامیہ الرٹ نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وسیب کے بہت سے اضلاع سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید نے بھارتی ڈیموں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مزید پانی ستلج میں بھیج سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دریا کی گزر گاہوں اور ندی نالوں سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے، سرائیکی وسیب جو کہ دریائوں کی سرزمین ہے کی صورتحال بھی عجب ہے کہ جب پانی کم ہوتا ہے تو پورے سرائیکی وسیب کو پیاس سے مار دیا جاتا ہے اور جب پانی زیادہ آتا ہے تو وسیب کو سیلاب میں ڈبو دیا جاتا ہے، اسی بناء پر سرائیکی شاعر امان اللہ ارشد نے کہا تھا ’’ڈوہیں مویوں ارشد پانی توں، تیکوں چھل مارے میکوں تریہہ مارے‘‘۔ وسیب میں ہر سال سیلاب آتے ہیں مگر بروقت انتظامات نہیں کئے جاتے، ابھی گزشتہ سال کے سیلاب متاثرین کی بحالی نہیں ہوئی، سوال یہ ہے کہ حکومت کی اس طرح توجہ کیوں نہیں ہے؟ دیکھا جائے تو پوری دنیا میں سیلاب آتے ہیں۔ سیلاب کے معاملے میں بنگلہ دیش بہت مشہور ہے۔ چین میں بھی سیلاب آتے ہیں لیکن ان ممالک نے سیلاب سے بچائو کیلئے بہت حد تک اقدامات کر لیے ہیں۔ ہمارے ہاں حکمران طبقہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور مس مینجمنٹ کو درست کرنے کی بجائے اپنے ڈھنڈورچیوں کے ذریعے یہ کہلوانا شروع کر دیتا ہے کہ غریبوں پر یہ عذاب اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، کیا اللہ تعالیٰ صرف غریبوں پر عذاب بھیجتا ہے؟ یہ شک غلط ہے۔ اللہ مہربان اور غفور الرحیم ہے اور غریب پر سب سے زیادہ راضی ہے کہ وہ اپنی محنت اور مشقت سے رزق حلال کھاتے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر اپنی غلطیوں پر قابو پانا چاہئے اور ایمانداری سے قوم کی خدمت کرنی چاہئے۔ 2010ء میں سیلاب آیا۔ اربوں ڈالر کی امداد ہڑپ کر لی گئی، کسی نے ڈکار بھی نہیں لیا۔ موجودہ سیلاب نے بیورو کریسی کا اس وقت پردہ چاک کر دیا جب ہزاروں کی تعداد میں خیمے بوسیدہ شکل کے سٹوروں سے برآمد ہوئے۔ یہ وہ خیمے تھے فروخت ہونے سے بچ گئے۔ باقی سب کچھ بیچ کر ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ نقد رقم تو ڈالر میں تبدیل ہو کر فارن اکائونٹس میں چلی جاتی ہے۔ غریبوں کو صبر کا درس دیا جاتا ہے۔ غریب صبر تو کر لیتا ہے مگر اس کی آہ عرش پر پہنچتی ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ سیلاب سے سرائیکی وسیب کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ سرائیکی وسیب بنیادی طور پر زرعی سماج ہے۔ کھربوں کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ادھار اور سود پر بیچ، کھاد اور زرعی ادویات حاصل کرنیوالے غریب کاشتکاروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لاکھوں ایکڑ رقبہ برباد ہوا۔ کئی لوگ لقمہ اجل بنے۔ بہت سے مویشی سیلاب کی نذر ہوئے۔ سینکڑوں شہر و قصبے ستلج کے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سے دیہات اور گھر نیست و نابود ہو گئے۔ مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں جا رہا ہوں، بہت برا حال ہے۔ میں ایک طرف سرائیکی وسیب کی ذرخیزی کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف تباہی کو تو مجھے خوب اندازہ ہو رہا ہے کہ سرائیکی وسیب محروم و پسماندہ کیوں ہے؟ ترقی معکوس اس کا مقدر کیوں بنا دی گئی ہے؟ لٹیرے سب کچھ لوٹ رہے ہیں۔ غریب کو صرف صبر کے بھاشن ملتے ہیں۔ وسیب کے لوگوں کو خیرات نہ دی جائے اُن کا صرف حق دے دیا جائے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں حکومت اور سیاستدانوں کی امدادی کارروائیاں فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔ کسی جماعت کے سربراہ نے ابھی تک اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ سیلاب زدہ علاقوں میں خیموں، ترپالوں، خوراک اور ادویات کے ساتھ ساتھ مچھر دانیوں اور جانوروں کیلئے چارے کی اشد ضرورت ہے۔ خشک لکڑی، سلنڈر اور گھر میں استعمال ہونیوالی اشیاء کی بھی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بستر ، تکیہ، رضائی، چادر، چار پائی، کمبل ، کپڑے وغیرہ بھی درکار ہوں گے کہ متاثرین کا کچھ نہیں بچا۔ امداد دینے والے اس بات کو ضرور یقینی بنائیں کہ ان کی امداد حقدار پر پہنچ رہی ہے؟ ایسا نہ ہو کہ مہنگی چیزیں بیچ کر وہی دکاندار حقداروں کی اشیاء سستے داموں دوبارہ خرید کر رہا ہو۔ ابھی تک یہ سب کچھ ہوتا آرہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کی طرح مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزراء ،ارکان اسمبلی، وسیب کے سرداروں، جاگیرداروں، تمنداروں، علماء و مشائخ کو سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے کہ ان سیلاب زدہ علاقوں جہاں اب بھی پانی کھڑا ہے، مجھے ایک پرندے اور دوسرے دوسرے یہ لوگ دیکھنے کو نہیں ملے۔