شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کہا تھا :فتوحات اور جنگیں ہی نہیں خانہ جنگیاں بھی سیاسی اور معاشی طور پر ریاست کو کمزور اور بالآخر ناکام بنا دیتی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے جب آنکھ کھولی تو سلطنت مغلیہ کا آفتا ب غروب ہو رہا تھا۔معاشرہ اور سیاست کا پرانا نظام منہدم ہو رہا تھا۔زندگی کے ہر شعبے میں زوال و انحطاط کے اثرات نہایت سرعت سے جاری تھے۔سارا نظام کھوکھلا ہو چکا تھا اور اخلاقی قدروں کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی،مرکز کے کمزور ہوجانے کے باعث ساری سلطنت میں ابتری ،بد نظمی اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی ۔ اس وقت دکن سے جو طوفان اٹھتا،وہ لال قلعہ سے آکر ٹکراتا ،پنجاب سے جو آندھی اٹھتی،اس کی گرددہلی میں بھی محسوس کی جاتی۔جاٹوں کا ہنگامہ برپا تھا،اس کی جولان گاہ بھی یہی بد بخت شہر بنتا،امرا کی شاطرانہ چالوں کی بساط قلعہ معلی ہی کے اندر بچھتی تھی،دہلی کے وہ باشندے جنہوں نے شاہجہاں اور اورنگ زیب کے عہد میں امن اور چین کے ساتھ زندگی بسر کی تھی،وہ ان کی پیہم ہنگامہ آرائیوں سے تنگ آ چکے تھے،ہر کسی کواپنی عزت و ناموس کا بچانا محال نظر آ تا تھا،زمین و آسمان کا بدلا ہو ا رنگ دیکھ کرا ن کی بد حواسی،مایوسی وحشت ،کم ہمتی اور خود فراموشی کے مہیب اثرات نے ساری قوم کو بے کار اور مفلوج کر دیا تھا ۔ باد شاہ ہنگامہ ہائے نائو نوش میں مدہوش اور عیش وعشرت میں غرق تھے،ان کے چاروں طرف امراء کی سازشوں کا ہولناک جال بچھا ہوا تھا،صوبوں میںخود مختاریاں اور نوابیاںقائم ہو رہی تھیں،سارا ملک سیاسی نبرد آزمائی اور کش مکش کا بازیچہ بن گیاتھا ،پارٹی بندی کے مسمو م اثرات محلات سے گزر کر عوام کی زندگی میں تلخی پید اکر رہے تھے۔اقتصادی حالات سب سے زیادہ تباہ کن تھے۔صوبہ داریوں کے قائم ہو جانے کے باعث آمدنی کے اصل ذرائع ختم ہو چکے تھے ۔ مرہٹے ،سکھ ،جاٹ ،روہیلے،سب میں ملک گیری کی ہوس پید اہو گئی تھی ،ملک کے گوشہ گوشہ میں باغیانہ قوتیں کام کر رہی تھیں ۔لوٹ مار ،قتل وغارت گری کا بازار گرم اور شاہانِ مغلیہ کا تاج طوفانی موجوں کے آغوش میںکھلونا بنا ہو اتھا ۔شاہ ولی اللہ کے دل و دماغ پر ان حالات کا جو اثر ہوا ،اس پر آپ نے ایک شعر کہا : کَاَنَّ نَجُوْمًا اَوْ مَضَتْ فِی الْغِیَاھِبْ عُیُوْنَ اْلاَفَاعِیْ اَوْرَئوسَ الْعَقَارِبْ تاریکوں میں جو ستارے چمک رہے ہیں ،مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ناگوں کی آنکھیں ہیںیا بچھوئوں کے سر ہیں۔ ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہد زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے بنگال اور مدراس کی طرف سے ہندوستان کی سیاست میں دخل اندازی شروع کی۔ لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی حقیقی دعوی دار ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ 1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر صرف مرہٹہ طاقت باقی رہ گئی تھی۔ جسے مختلف محاذوں پر شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1803ء تک اقتدار سے بے دخل کردیا اور مرہٹہ سردار ایک ایک کرکے کمپنی بہادر کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ 1803ء میں جنرل لیک کی سرکردگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں علی گڑھ اور آگرہ پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی میں داخل ہوئیں تو مغل شہنشاہ شاہ عالم بے بسی کے عالم میں ایک پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے انگریزوں کے استقبال کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ جنرل لیک نے مغل شہنشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کردیا اور پھر بر صغیرکا اقتدار اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ شاہ ولی اللہ مغلیہ سلطنت کی ناکامی کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اورنگ زیب عالمگیرسے لے کر شاہ عالم ثانی تک گیارہ مغل بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ انہوں نے سلطنت مغلیہ کے سیاسی، معاشی اور تعلیمی نظام کو قریب سے دیکھا۔آپ ؒ کی نظر میں مغلیہ سلطنت کی بنیادی کمزوری معیشت اور اس کی خرابی کا تھی۔اپنے مکتوب میں آپ ؒ مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب میں خاندانی بادشاہت، امرا ء اور ملازمین سلطنت میں توسیع اور معیشت کے نظم و نسق کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خاندانی بادشاہت کے مغل طرز حکومت نے جانشینی کو سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا تھا۔ جانشینی یا انتقال اقتدار کا کوئی قانون یا ضابطہ نہ ہونے کی وجہ سے سازشوں، بغاوتوں اور تخت نشینی کی جنگوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے شاہی خاندان سیاسی نظام کی توجہ کا مرکز رہتا۔ شاہ ولی اللہ تفہیمات الہیہ میں لکھتے ہیں: اے امیرو! کیا تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا۔ تم دنیا کی فانی لذتوں میں اتنے ڈوبے ہوئے ہو کہ تمہیں عوام کا کوئی خیال نہیں آ رہا۔ تم جسے کمزور پاتے ہو اسے نگل جاتے ہو اور جسے طاقتور دیکھتے ہو، اس کو چھوڑ دیتے ہو۔ تمہاری ذہنی قوتیں لذیز کھانوں، نرم و گداز جسم والی عورتوں، نفیس کپڑوں اور اونچے مکانوں کے حصول میں صرف ہوتی ہیں۔ ایک اور خط میں ٹیکس کی وصولی کے ذمہ دار حکا م کو یاد دلاتے ہیں کہ: ٹیکس وصولی کا نظام ہی ملکی بربادی اور عوامی بدحالی کا بہت بڑا سبب ہے۔ جو لوگ حکومت کی بات مانتے اور فرمانبرداری دکھاتے ہیں،وہ تباہ حال ہو رہے ہیں۔سرکشوں اور نادہندگان کے حوصلے اور بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی خرابیا ں پورے نظام کو گھن بن کر کھا جاتی ہیں۔ یہ دیمک لگا نظام بظاہر مستحکم نظر آتا ہے۔ پتا تب چلتا ہے،جب ریاست کی عمارت زمین بوس ہو نے لگتی ہے۔ شاہ ولی اللہ کی نظر میں سلطنت مغلیہ کی ناکامی کی بڑی وجہ اس کی یہی اندرونی کمزوریا ں تھیں۔ محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ’’دربار اکبری‘‘ میں لکھا ہے کہ امیر تیمور نے ہندوستان کو زور شمشیر سے فتح تو کیا، مگر وہ ایک بادل تھا جو گرجا، برسا اور دیکھتے ہی دیکھتے کِھل گیا۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے سیاسی مکتوبات کو مکی دا رالکتب مزنگ لاہور نے چھپا ہے ۔خلیق احمد نظامی نے بڑی محنت کے ساتھ مکتوبات کو اکٹھا کیا ،پروفیسر محی الدین شاہ ولی اللہ ؒ کے افکار کو دوستوں تک پہنچاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انھیں صحت و تند رستی عطا فرمائے ۔یہ کتاب ہر صاحب مطالعہ کے لیے بڑی مفید ہیں۔