وہ دونوں طالبان ہی تھے جن کی ڈیوٹی اب دو بجے شروع ہونی تھی ۔ میں ، سونیا اور بانو ایک ٹیلے پر چڑھی ہوئی دوسری طرف دیکھ رہی تھیں، جب وہ ہمارے سامنے آئے۔ وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ انداز میں نہایت بے پروائی تھی ، جیسے ان کے خیال میں وہاں ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ ان کے سامنے آنے کا انتظار کرتے ہوئے بانو تیر چلانے کے لیے پوری طرح تیار تھیں ۔ تیر چلانے میں بھی انہوں نے بالکل تاخیر نہیں کی ۔ تیر ایک طالب کے سینے میں یعنی دل کے مقام پر لگا ۔ اس کا منہ کھل گیا ۔ اس کی کراہ بھی نکلی ہوگی جس کی آواز ہم تک نہیں پہنچ سکی ۔ دوسرا طالب زمین پر گرے ہوئے اپنے ساتھی کے سینے میں تیر دیکھ کر بوکھلایا تو یقینا ،لیکن پھر فوراً ہی اس نے اپنے شانے سے کلاشنکوف اتاری ۔ وہ اندھا دھند ہر طرف گولیاں برسانی شروع کردیتا لیکن اسے اتنی مہلت نہیں مل سکی ۔ بانو نے دوسرا تیرنکال کر کمان پر چڑھانے اور دوسرے طالب کو نشانہ بنانے میں بہت تیزی سے کام لیا تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ طالب کلاشنکوف کا ٹریگر دباتا ، تیر اس کے سینے میں پیوست ہوچکا تھا۔ وہ خود بھی اپنے ساتھی کے قریب ڈھیر ہوگیا ۔ ’’بہت سچا نشانہ ہے آپ کا تیر چلانے میں بھی ۔‘‘ میں نے سکون کی سانس لیتے ہوئے کہا ۔ ’’مجھے تیر اندازی کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔ ‘‘ ’’یہ زمانہ ہی تیر کمان کا نہیں ہے لیڈر !‘‘ سونیابولی ۔ ’’اب ان دونوں لاشوں کو بھی ٹھکانے لگانا ہے۔ ‘‘ دو طالبان کی لاشیں ہم نے ایک کھائی میں پھینک دی تھیں ۔ ان دونوں کو بھی گھسیٹ کر اسی کھائی میں پھینک دیا گیا ۔ ’’اب ہمیں اندھیرا پھیلنے کا انتظار کرنا ہوگا ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’مرکز میں داخل ہونے کے لیے تاریکی ضروری ہے ۔‘‘ ’’تم نے غلطی کی ہے صدف ! ‘‘بانو نے کہا ۔ ’’جب ہم مرکز کے اتنے قریب تھے تو پہاڑ سے اتنی جلدی اترنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘ ’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں بانو ! ‘‘میں نے اعتراف کیا ۔ ’’مجھے اپنی اصلاح کرنی چاہئے ۔ مجھے جوش آتا ہے تو میں عجلت کا شکار ہوجاتی ہوں ۔ مرکز کو اتنا قریب جان کر مجھے جوش آگیا تھا۔ ‘‘ ’’اب چھ گھنٹے بعد آئیں گے دو طالب۔‘‘ بانو نے سوچتے ہوئے کہا پھر مجھ سے پوچھا ۔ ’’مرکز میں داخل ہونے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا ؟ ‘‘ ’’پانچ چھ منٹ ۔‘‘ ’’تو اب پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے انتظار کرنا چاہئے ۔ ساڑھے سات بجے اندھیرا ہوجائے گا ۔ اس وقت ہم داخل ہوں گے تو کسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ اب جن طالبان کو آنا ہے ، وہ آٹھ بجے سے چند منٹ پہلے اس راستے پر آئیں گے ،ہم اس وقت اندر جاچکے ہوں گے ۔‘‘ بانو نے کہا پھر بولیں ۔ ’’لاشیں تو ہم نے ٹھکانے لگا دی ہیں لیکن یہ خون کے دھبے…‘‘ ’’ان کو چھپا نا ضروری ہے ۔‘‘ ’’وہ جب آئیں گے تو اندھیرا ہوگا۔ ‘‘سونیا بولی ۔ ’’اندھیرے ہی کی وجہ سے وہ ٹارچ بھی ساتھ لائیں گے۔ ‘‘ بانو نے کہا۔ ’’ٹارچ کی روشنی خون پر بھی پڑسکتی ہے۔ ‘‘ ’’یہاں مٹی تو ہے نہیں کہ یہ داغ چھپائے جاسکیں ! ‘‘سونیا نے کہا ۔ ’’یہاں پتھر تو ہیں۔ ‘‘ میں بول پڑی ۔ ہمارے گرد ٹیلوں کے علاوہ گول ، بیضوی اور چکنے پتھر بھی بکھرے ہوئے تھے ۔ میں نے اپنی بات میں اضافہ کیا ۔ ’’یہ پتھر بھی خون کے دھبوں پر ڈالے جاسکتے ہیں۔ ‘‘ ’’گڈ !‘‘ بانو نے مجھے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا ۔ ’’یہی خیال میرے ذہن میں بھی آیا تھا ۔ ‘‘ سونیا نے اثبات میں سر ہلایا ۔ ’’مجھے یہ خیال نہیں آیا تھا۔ ‘‘ ’’اب یہ کام جلدی سے کر ڈالا جائے۔‘‘ بانو نے کمان فولڈ کرتے ہوئے کہا ۔ اس کام میں ایک گھنٹے سے زیادہ لگ گیا ۔ بڑے اور چھوٹے ، دونوں ہی قسم کے پتھر وہاں پھیلے ہوئے تھے ۔ انہیں اٹھا اٹھا کر خون کے دھبوں پر ڈالا گیا ۔ اس کے بعد ان دونوں طالبان کے خون کے دھبے بھی چھپائے گئے جو ہمارے ہاتھوں پہلے مارے گئے تھے ۔ ’’اب تو بھوک سے برا حال ہے۔ ‘‘ سونیا بولی ۔ ’’ہمیں چند گھنٹے مل گئے ہیں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ پھر ایک چٹان کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولیں ۔’’ اس کا سایہ ہمارے لئے غنیمت ہے۔ ‘‘ سورج مغرب کی طرف جھک رہا تھا ، اس لئے چٹان کے مشرق میں سایہ تھا ۔ سائے میں بیٹھ کر ہم تینو ںنے کھانا کھایا ۔ کھانے کے دوران ، میں نے ایک طویل سانس لے کر کہا ۔ ’’دنیا میں شاید کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ تین عورتیں طالبان کے مرکز میں داخل ہونے کا عزم کر چکی ہیں۔ ‘‘ ’’لیکن یہ آسان ثابت نہیں ہورہا ہے۔‘‘ سونیا نے کہا۔ ’’قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور آئندہ بھی پڑے گا ۔ ہم اپنے کئی ساتھیوں کی جان سے بھی ہاتھ دھوچکے ہیں۔‘‘ ’’ہم درندوں کی کچھار میں قدم رکھنے جا رہے ہیں سونیا !‘‘ میں نے کہا ۔ ’’یہ سب تو ہوگا ۔‘‘ پھر میں نے بانو کی طرف دیکھ کر کہا ۔ ’’کچھ باتیں سنیں آپ نے ان لوگوں کی ؟ ‘‘میری نظر بانو کے ایئر فون کی طرف گئی تھیں ۔ ’’ان لوگوں کی گفت گوسے ایک خطرناک بات معلوم ہوئی ہے۔ ‘‘ بانو نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ مرکز میں اس وقت ایک یہودی سائنٹسٹ بھی موجود ہے ۔ اس کی لیبارٹری بھی ہے وہاں ۔ وہ طالبان کے لیے کوئی ایسی گیس بنانا چاہتا ہے جو خود کش جیکٹ میں بارود کے ساتھ ہوگی ۔ جب جیکٹ پھٹے گا تو وہ گیس جہاں جہاں تک جائے گی ،وہاں تک سب لوگ اندھے ہوجائیں گے ۔ کم از کم صرف زخمی ہونے والے تو اپنی بینائی کھو ہی دیں گے۔‘‘ ’’مائی گاڈ۔ ‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’تو پھر ہمیں یہ طے کرلینا چاہئے کہ مرکز میں داخل ہونے کے بعد ہمیں سب سے پہلے نہ صرف وہ لیبارٹری تباہ کرنی ہوگی بلکہ اس سائنٹسٹ کو بھی ختم کرنا ہوگا ۔ کیا نام ہے اس کا ؟‘‘ ’’کاف مین۔ ‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ طالبان مرکز کی ہنگامہ خیزی کا آغاز ! کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں !