پاکستان میں تمام حکومتیں مرضی کی بن گئیں، من پسند افراد بھی حکومت میں آگئے… مرضی کے کیس بھی بن گئے، اور اُن کیسز کی سزائیں بھی سامنے آنا شروع ہوگئیں… مرضی کی قیادت کو بھی الیکشن میں ’’ان‘‘ ہو گئی۔ اب صدر بھی آجائیگا، اور سینیٹ کے الیکشن میں بھی مرضی کے سینیٹرز اور،چیئرمین سینیٹ بھیپسند کا آ جائے گا۔ تو پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں کیوں؟ سوشل میڈیا، آزادی اظہار رائے کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔ پہلے یہ اظہار آپ اخبارات یا جریدوں کے ذریعے کرتے تھے، لیکن اُس میںبھی بہت سے مسائل تھے، کہ جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے، یا تو اُسے ایڈٹ کر دیا جاتا تھا، یا سینسر کرکے آپ کا پیغام عوام تک پہنچایا جاتا تھا، لیکن سوشل میڈیا کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا ’’بیرئیر‘‘ نہیں ہے۔ آپ براہ راست عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اب پاکستان میں یہ سوشل میڈیا منفی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور مثبت انداز میں بھی۔ لیکن یہ حکومتوں کے لیے ہمیشہ سردرد بنا رہا ہے، سردردہے اور آنے والے دور میں بھی یہ مزید سر درد بنے گا۔ لیکن اب سنا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان نے بھی سوشل سائیٹس پر پابندی لگانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے، جس کے مطابق من چاہی ’’پوسٹ‘‘ کو صارفین تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہوگا۔ اور اس کا ’’ٹیسٹ‘‘ سب سے پہلے ٹوئیٹریعنی ایکس پر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ’’ایکس‘‘ پلیٹ فارم پر زیادہ پابندی ہے اور یہ کم و بیش ایک ماہ سے یہ بند ہے، حالانکہ اس کے صارفین کی تعداد بہت کم یعنی صرف 50لاکھ ہے۔ یہ سوشل میڈیابیرون ملک پاکستانیوں اور عالمی کمیونٹی سے جڑنے کا ذریعہ ہے اور پھر ایکس پر ہیش ٹیگ کی سہولت بھی موجود ہے جو ایک طرح سے بیانیہ بنانے میں مدد دیتی ہے، تو پیغام روزمرہ کی بنیاد پر پانچ ملین صارفین سے بڑھ کر کہیں زیادہ افراد تک پہنچتا ہے۔اس لیے ان دنوں جب الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور ثبوت سامنے آ رہے تھے ، تو بظاہر یہی تاثر ملتا تھا کہ اسے اسی باعث بلاک کیا گیا۔یعنی سادہ سی زبان میں اگر سمجھائوں تو ٹوئیٹر پر پیغام بھیجنا دنیا بھر کے بڑے بڑے ناموں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، جس سے آپ کے ملک کے اندر ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی سے آپ کے ملک کانا صرف امیج خراب ہوتا ہے بلکہ آپ کے ملک کی ریٹنگ پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ تبھی گزشتہ روز امریکی وزارت خارجہ نے یہ تنبیہ کی ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آزادی اظہار کی حمایت کرتے ہیں، پہلے بھی کہہ چکے ’’ایکس‘‘ سمیت انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر جزوی یا مکمل حکومتی بندش کی مذمت کرتے ہیں۔میتھیو ملر نے کہا کہ انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر کسی طرح کی پابندی ناقابل قبول ہے، پاکستان کے حکام پر ان بنیادی آزادیوں کے احترام کی اہمیت پر زور دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔پاکستان میں مسابقتی الیکشن ہوا، کروڑوں لوگوں نے اپنی آواز سنائی، نئی حکومت بن گئی،اس حکومت کیساتھ مل کرکام کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات میں بے ضابطگیوں کی رپورٹس اور نتائج پر سیاسی جماعتوں کے چیلنج سامنے آئے، ان چیلنجز اور ان بے ضابطگیوں کی مکمل تحقیقات ہونی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ایران جیسا ملک یہ اعتراف کر رہا ہے کہ اُن کا ملک سوشل میڈیا پر پابندی کی وجہ سے دنیا میں پیچھے رہ گیا۔ اور یہ بات کسی اور نے نہیں کی بلکہ ایرانی صدر حسن روحانی نے کی ہے، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بعض سوشل میڈیا سائٹس کو بند کرنے سے ملک کافی پیچھے رہ گیا ہے۔آج کی دنیا تبدیلی اور ترقی کے دور سے گزر رہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر پابندی لگانے سے ہم دور حاضر سے پیچھے جا رہے ہیںجبکہ اس کے برعکس ہم سوشل میڈیا پر پابندیاں لگا نے کو ترجیح دے رہے ہیں، حالانکہ انہیں یا بات سمجھنی چاہیے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جبکہ پوری دنیا نہ صرف ان سے وابستہ ہے بلکہ اس کے ذریعے کاروباری سرگرمیاں بھی جاری ہیں،ان کی مکمل بندش کی قرارداد بعید از فہم ہے۔بلاشبہ ہمارے ہاں اس ٹیکنالوجی کا منفی استعمال زیادہ ہے لیکن کیا اس وجہ سے اسکے مثبت پہلوئوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟جو شکایات ہمارے ہاں ہیں دنیا کے دیگر ممالک کو بھی پیش آئیں تو انہوں نے اس کا حل نکالا،نہ صرف عرب ریاستوں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کے غلط استعمال کی نگرانی کے ایسے طریقے اختیار کیے گئے ہیں کہ جوں ہی کوئی فرد کوئی ایسی پوسٹ کرتا ہے جو ملک و قوم کے مفادات کے منافی ہو،گرفت میں آجاتا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایف آئی اے میں سائیبر کرائم ونگ موجود ہے اس لیے ان ایپس کو بند کرنے کے بجائے وہی طریقہ اپنایا جانا چاہیے جو دیگر ممالک استعمال کر رہے ہیں تاکہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال جاری رہے اور منفی سرگرمیاں بھی ممکن نہ ہوں۔ بہرکیف چلیں یہ بات مان بھی لی جائے کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اس وقت پاکستان پر سب سے زیادہ چھایا ہوا ہے، ایک ایک ٹویٹ یا پوسٹ آپ کی نیوزکا اینگل بدل دیتی ہے، حالات بدل دیتی ہے، اور یہ زور آج کا نہیں ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان نے 2010 میں ہی فیس بک اور ٹوئٹر آفیشل اکاؤنٹس کا آغاز کردیا تھا،حالانکہ اُس وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر توجہ دے رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر مقبولیت کی بے تاج بادشاہ بھی رہی تاہم سنہ 2013 کے عام انتخابات کے نتائج تحریک انصاف کے حمایتوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئے جب سوشل میڈیا پر پارٹی کی مقبولیت کی جھلک انتخابات کے نتائج میں نظر نہیں آئی۔لیکن اس کے بعد ہی سے ہر سیاسی پارٹی کا اپنی سوشل میڈیا ٹیم بنانے اور اپنی حمایت میں ٹوئٹر ٹرینڈ چلانے کا رواج پڑا جو آج تک بہت سوں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ جب لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے بھی پاکستانی فوج اور اس کی پالیسوں کا عوام میں مثبت تاثر قائم کرنے کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر اس وقت یہ ماننا پڑے گا کہ بانی تحریک انصاف کو اس بات کا ادراک تھا کہ آنے والا دور سوشل میڈیا کا ہے، تبھی انہوں نے اپنے فالوورز کو اس چیز کے لیے ناصرف تیار کیا بلکہ نئے نئے ٹرینڈز بھی متعارف کروائے۔ لہٰذامیرے خیال میں حکومت چاہتے ہوئے بھی اس جماعت کا زور ختم نہیں کر سکتی۔ اس لیے میرے خیال میںا گر حکومت اپنی بھائو بھی سوشل میڈیا پر بڑھانا چاہتی ہے تو اس کے لیے پابندی حل نہیں بلکہ انصاف پر مبنی حکومت قائم ہو، حکومت کارکردگی دکھائے اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ ورنہ آنے والے دنوں میں اس سے بھی برے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے!