آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روزمختلف ائیر ڈیفنس ویپن سسٹم کی فائرنگ کا مشاہدہ کیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف نے آرمی ایئر ڈیفنس سسٹم کے مربوط فائر اور جنگی مشقوں کا جائزہ لیا ۔انھوںنے ہائی ٹو میڈیم ایئر ڈیفنس ویپن سسٹم کا بھی مشاہدہ کیا۔اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ مسلح افواج پاکستان کے خلاف ابھرتے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے سسٹمز کو جدید بنا رہی ہیں۔ آرمی چیف نے اہداف کے حصول میں کور آف آرمی ایئر ڈیفنس کی آپریشنل تیاری کو سراہا۔ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے ،جو کسی بھی ہمسائے ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔لیکن اپنی علاقائی اور قومی سلامتی کے دفاع اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے، اسی وجہ سے وہ روایتی ہتھیاروں میں توازن برقرار رکھتا ہے ۔ پاکستانی افواج کی صلاحیت کی بنیاد دفاعی ضروریات ہیں اور پائیدار امن ہمیشہ سے اس کا حتمی مقصد رہا ہے۔پاکستان نہیں چاہتا کہ اس کو ہتھیاروں کی دوڑ میں گھسیٹا جائے کیوں کہ لوگوں کی فلاح و بہبود موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے۔مگر کمزور فوجی قوت بیرونی جارحیت کو دعوت دیتی ہے، اس لیے پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری رکھا ہو اہے ۔گزشتہ روز بھی ائیر ڈیفنس ویپن سسٹم کا ایک کامیاب تجربہ ہو اہے ،ہائی ٹو میڈیم ائیر ڈیفنس ویپن سسٹم کا یہ پہلا تاریخی کامیاب تجربہ ہے۔ اس وقت پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔نیشنل سیکیورٹی کا مقصد وقت کے ساتھ مختلف محرکات کا مقابلہ کرنا ہے۔پاکستان کو ایک ایسے شاطر دشمن کا سامنا ہے جو خطے میں ہتھیاروں کا انبار رلگا رہا ہے ،اس کے باوجود پاکستان خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ۔نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ہے۔جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کی صف میں پاکستان سب سے آخر میں شامل ہو الیکن اس بات میں کسی کو بھی شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس کلب کے دیگر ارکان کی نسبت بہتر ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خصوصاً 5 سے 10 کلوٹن کے چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری جنوبی ایشیاء کے خطے میں عسکری توازن کو تبدیل کرسکتی ہے۔پاکستان کی بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی جبکہ دوسری جانب بھارت اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تنائوخطے میں عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے۔ پاکستان ان عوامل سے بخوبی آگاہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر کر رہا ہے ۔پاکستان 1971ء سے ایٹمی میدان میں نمایاں پیش رفت کر رہا ہے اور پلوٹونیم اور افزودہ یورینیم پر مبنی ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد بھی بڑھارہا ہے۔پاکستان کے پاس اس وقت 140 سے 150 ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس تین ہزار سے چار ہزار کلوگرام ہتھیار بنانے کے لئے تیار HEUاور 200 سے 300 کلوگرام پلوٹونیم موجود ہے۔یقینی طو رپر اس ذخیرے سے 200 سے 250 ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں۔ اگر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنائے جائیں تو ان کی تعداد اوربھی زیادہ ہوسکتی ہے۔اس کے باوجود پاکستان بڑے ہی صبر و تحمل سے دفاع کے شعبے میں آگے بڑھ رہا ہے ۔اور کئی بار سول حکومت او رعسکری حکام اس بات کا علان کر چکے ہیں کہ پاکستان کے عزائم جارحا نہ نہیں ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے مقابلے میں بھارت گذشتہ پانچ برس سے جنگی ہتھیار اور دفاعی سامان خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان دفاعی درآمدات میں 14 فیصد اضافہ کے بعد آٹھویں نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر ہتھیاروں کی خریداری میں کمی ہوئی تاہم یورپ میں روس یوکرین جنگ کے بعد اسلحے میں اضافے کی دوڑ لگی ہے۔ سویڈن کے معروف تھنک ٹینک اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہتھیاروں کے مجموعی حجم کا سب سے زیادہ ، 11 فیصد اکیلے بھارت نے پانچ سال کے دوران خریدا۔بھارت میں ہتھیاروں کی درآمدات میں 2013-17 اور 2018-22 کے درمیان 11 فیصد کمی واقع ہوئی تاہم یہ اب بھی دنیا کا سب سے بڑا جنگی ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کمی کو کئی عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے جن میں خریداری کے عمل کی پیچیدگی، ہتھیاروں کے سپلائرز کو متنوع بنانے کی کوششیں اور درآمدات کی بجائے ملکی سطح پر ہتھیاروں کی تیاری شامل ہیں۔روس -17 2013 اور 2018 -22 دونوں ادوار میں ہندوستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ فرانس ہندوستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا ملک ہے۔ 2013-17 اور 2018-22 کے درمیان پاکستان کی ہتھیاروں کی درآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ عالمی مجموعی حجم کا 3.7 فیصد ہے۔یوںپاکستان دفاعی درآمدات کی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔گزشتہ روز بھی آدمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہ پاکستان کے خلاف ہر قسم کی جارحیت کو روکنے کے لیے جدید نظام بنا رہے ہیں ۔ایک ایسا نظام جو ہماری دفاعی قوت میں اضافے کا موجب بنے گا ،اور پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مضبوط دفاعی ملک کے طور پر سامنے آئے گا ۔مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری آگے بڑھ کردیرینہ تنازعات کے پرامن حل کے لیے کوششیں کرے۔