اپنی مرضی سے سوچنے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور دوسرے کی مرضی سے سوچنے کی پابندی غلامی کی بدترین شکل۔ معاشرہ تباہ ہو جاتاہے جب کوئی کسی کو اپنے نقطۂ نظر سے سوچنے کا پابند بنا دے۔ ہم ایسے ہی پروان چڑھے ہیں کہ دوسرے کو محض اس لیے غلط قرار دے دیتے ہیں کہ اُس کی رائے ہماری رائے سے مختلف ہوتی ہے۔ عجیب بات ہے مختلف کو مختلف نہیں کہتے ،غلط قرار دے دیتے ہیں۔ ’’غلط‘‘کیا ہوتا ہے؟ غلط کی تعریف کیا ہے؟ اس کے لیے پہلے ’’صحیح‘‘ کا تعین کرنا پڑے گا۔غلط کو صحیح کے مقابلے پہ رکھ کے ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ کمزور معاشروں میں ’’صحیح‘‘ کا تعین طاقتور کرتا ہے۔ طاقتور جسے صحیح قرار دے وہی پیمانہ بن جاتا ہے۔ اس پیمانے پر پوری نہ اترنے والی چیز خود بخود ’’غلط‘‘ کے خانے میں چلی جاتی ہے۔ قومی مفاد کیا چیز ہے؟ اس کا تعین کون کرتا ہے؟ اس کا تعین کیا ایک ہی فریق کر سکتا ہے؟ کیا قومی مفاد کا تعین بیک وقت دو فریق نہیں کر سکتے؟کیا دیکھنے کے دو الگ الگ زاویے نہیں ہو سکتے؟ کیا دو ادارے، شخصیات یا گروہ اپنے اپنے زاویہء نظر سے مثبت انداز میں الگ الگ نہیں سوچ سکتے؟ کیا ایک چیز پر دو آراء نہیں ہو سکتیں؟ کیا دوسرے فریق کے دماغ میں اپنے نظریات کی جگہ بنانے کے لیے اُس کے اپنے نظریات کو ڈیلیٹ کروانا ضروری ہے؟ کیا پُرتشدد رویہ بغاوت کی جانب نہیں اُکساتا؟ بغاوت مخالفت کا آخری درجہ ہے، ہر باغی ابتدا میں صرف مختلف رائے کا اظہار کرتا ہے، ماحول سازگار نہ ہو تو اپنی بات کے اظہار کے لیے اسے مشقت کرنا پڑتی ہے، ماحول گھٹن زدہ ہو جائے تو وہ اپنے لہجے میں شدت پیدا کر لیتا ہے، ہلکی آواز میں کتھارسس ہو جائے تو آواز اونچی نہیں کرنا پڑتی۔ لہجے میں شدت پیدا ہو جائے تو انسان باغی کہلاتا ہے۔مگر باغی کی نفسیات کا مطالعہ مشعلِ راہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ دھمکی اور زور زبردستی سے صرف زبان خاموش ہو سکتی ہے، الاؤ نہیں بجھتا۔ سینوں میں چنگاری بن کے موجود رہتا ہے، سازگار ماحول اور مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے۔اس چنگاری سے مزید الاؤ جلتے ہیں، مختلف سینوں میں وہ مختلف شکلیں اپناتے ہیں۔ کہیں غصہ بن جاتے ہیں، کہیں نفرت بن جاتے ہیں اور کہیں کسی تحریک کی بنیاد۔ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں اپنے وجود کا اظہار ضرور کرتے ہیں ۔ مہذب معاشروں میں مختلف آراء پر بحث ہوتی ہے، دلیل اور منطق جہاں سب سے بڑے ہتھیار ہو تے ہیں۔ جس کی دلیل طاقتور ہو وہ جیت جاتا ہے۔ کمزور معاشروں میں دو مختلف آراء کے درمیان فیصلہ طاقت کرتی ہے جس کے پاس طاقت ہو وہ دھمکا کر جیت جاتا ہے، کمزور جان بچانے کے لیے خاموش ہو جاتا ہے، خاموش نہ ہو تو خاموش کر دیا جاتاہے۔ ریاست قوانین کے تحت چلائی جاتی ہے۔ریاست قانون کی کتاب اٹھا کر سائیڈ پہ رکھ دے اور چہرے پہ ماسک چڑھا لے تو معاشرہ لاقانونیت کی راہ پر چل نکلے گا۔ قوانین ریاست کی حفاظت کے لیے کافی ہوتے ہیں، طاقت قانون کے پاس ہونی چاہیے، قانون کو ہر طرح کی بغاوت کچلنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے اور اسے بلا جھجک اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔ قانون کی عمل داری میں ہچکچاہٹ اور متبادل راستے کا چناؤ ایک طرف عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے تو دوسری طرف قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف۔قانون ہی لونڈی بنا لیا جائے تو کیا کیجئے؟صدیوں سے مہذب معاشروں نے جو روایات اپنا رکھی ہیں ان سے انحراف سود مند نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ معاشرے میں مختلف سوچ رکھنے والے افراد کے خلاف طاقت کا استعمال بے چینی پیدا کرتا ہے، ایک آدھ باغی کو نشانہ بنانے سے باقی لوگ وقتی طور پر تو محتاط ہو جاتے ہیں لیکن بات دل میں رہ جاتی ہے، صبر کا پیمانہ قطرہ قطرہ بھرنے لگتا ہے، کون جانے یہ کب چھلکے، مگر جب چھلکے گا تو سیلاب کی صورت، ایسا سیلاب جو روکے نہ رکے۔ ریاست، اس کے اداروں اور اس کے قوانین کی تعظیم لازم ہے۔ تعظیم کی تعریف قانون کرتا ہے لہذا تعظیم کی خلاف ورزی قانون کی خلاف ورزی تصور ہونی چاہیے جس پر قانون کے مطابق سزا بھی ہونی چاہیے۔ سزا اگر قانون کے دائرے میں نہ لائی جائے تو بے چینی جنم لے گی، سوال اٹھیں گے اور نتائج ہرگز مثبت نہ رہیں گے۔ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے۔ پہلے مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر سوال اُٹھانے پر پابندی لگی، سوال کرنے اور مختلف نقطۂ ہائے نظر دینے والے کی آزادی چھینی گئی، اسے کافر کہہ کر واجب القتل قرار دے دیا گیا، دوسرے فریق نے بھی یہی کیا، بحث کی گنجائش نہ رہی۔ دلیل اور منطق عنقا ہو گئیں۔ اس سب کی جگہ جذباتیت اور ہٹ دھرمی نے لے لی۔ دوسرے کے نقطۂ نظر پر غور وفکر کی گنجائش باقی نہ رہی تو پُرتشدد رویوں نے جنم لیا۔ فریق مخالف کا وجود نفرت کی علامت بنا دیا گیا۔ اس پہ کبھی غور نہ کیا گیا کہ دوسرے کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہونا ایک بات ہے مگر دوسرے پراپنا نقطۂ نظر جبراََ مسلط کرنا دوسری بات۔ معاشرے یونہی تباہ ہوتے ہیں۔ لازم ہے کہ معقول اور صحت مند بحث کو رواج دیا جائے، بحث میں حصہ لینے والے عناصر مخالفت کو اس حد تک نہ جائیں کہ دلیل اور منطق کا ساتھ چھوٹ جائے جبکہ تنقیدکا نشانہ بننے والے منطقی دلائل سے مقدمہ جیت سکتے ہیں۔ شوہر بیوی پہ ہاتھ تب اٹھاتا ہے جب بیوی کا سوال سخت ہو مگر شوہر کے پاس جواب نہ ہو۔ موثر جواب رکھنے والا شوہر کبھی تھپڑ سے جواب نہیں دے گا۔ پچھلے چالیس سال سے مخالف نظریات رکھنے والے لوگوں پر حملے ہو رہے ہیں، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی مسلک کے نام پر، کبھی وطنیت کے نام پراور کبھی قومی مفاد کے نام پر۔ ہم دلیل سے قائل کیوں نہیں ہو سکتے؟ ہم منطق سے مقدمہ کیوں نہیں جیت سکتے؟