تجزیہ کار دوستوں کا خیال ہے پاکستان کا موجودہ بحران چین اور امریکہ کے درمیان جاری کشمکش کا چہرہ ہے۔پاکستان کی حکمران اشرافیہ‘ مقتدر اداروں کے اعلیٰ عہدیدار ‘ بیورو کریسی اور نمایاں کاروباری افراد کے رابطے اور مراسم امریکہ کے ساتھ رہے ہیں۔امریکہ پچھلے پچاس سال تک پاکستان کے ہمسائے میں بیٹھا رہا ہے۔دوطرفہ ضرورت نے سیاست دانوں اور افسر شاہی کی کئی نسلوں کو امریکہ کا وفادار رکھا ہے۔اب دنیا بدل رہی ہے۔عالمی نظام میں امریکی طاقت کم پڑ رہی ہے۔پاکستان میں امریکہ کی سرمایہ کاری میں ممکن ہے دوستی اور خلوص کی کچھ شرح شامل ہو لیکن یہ سچ ہے کہ جو لوگ امریکہ کے ساتھی کے طور پر پاکستان میں نمایاں ہوئے انہوں نے کرپشن ‘بدانتظامی اور عوام دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ یوں انہوں نے اپنے ساتھ امریکہ کو بھی پاکستان میں بدنام کیا۔پاکستان میں چین کو ایک قابل بھروسہ ہمسایہ‘ معاشی شراکت دار اور دفاعی مددگار سمجھ لیا گیا ہے‘ پہلے یہ خوبیاں امریکہ میں پائی جاتی تھیں۔جو لوگ بدعنوان اشرافیہ سے نجات کے لئے جدوجہد کرتے رہے ہیں وہ چین کے احتسابی نظام کی بات کر کے باور کراتے ہیں کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو چین جیسا ہونا چاہیے۔چین نے چند برسوں کے دوران 70کروڑ کے قریب لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔یہ سب لوگ چین کے ساتھ شراکت داری چاہتے ہیں۔ مجھے یہ بتانے کا حق نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں کون کس ملک کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے۔میری قاری جانتے ہیں کہ لوگ پہلے طاقت حاصل کرتے ہیں۔سیاسی حمایت‘ میڈیا کی مقبولیت‘ مذہبی پذیرائی‘ تشدد کی صلاحیت وغیرہ وغیرہ اور پھر اس طاقت کا سودا کسی ایسی قوت کے ساتھ کر لیتے ہیں جو انہیں اقتدار اور مالی فوائد کی یقین دہانی کراتی ہے۔ محترم سراج الحق نے پرخلوص کوشش کی کہ ایک دوسرے سے بگڑے ہوئے سیاست دانوں کو میز پر بٹھا کر غیر سنجیدہ ہو چکے ماحول میں سنجیدگی کی طرف پلٹنے کی سکت پیدا کریں۔ان سے پہلے طاقتور حلقوں سے میل جول رکھنے والے امتیاز عالم‘ مجیب الرحمن شامی اور سہیل وڑائچ جیسے سینئر صحافیوں نے مکالمے کا امکان پیدا کرنے کی کوشش کی،حال ہی میں اے این پی نے آل پارٹی کانفرنس کا انعقاد کیا۔یہ کانفرنس اس لحاظ سے ناکام رہی کہ تحریک انصاف اس کے ایجنڈے پر مطمئن نہ ہو سکی اور شرکت سے معذرت کر لی۔ تحریک انصاف کی عدم موجودگی میں کوئی سیاسی کانفرنس کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ درپیش بحران کا سب سے اہم سیاسی فریق ہے۔ 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا معاملہ التوا کا شکار کیا جا رہا ہے۔وزیر داخلہ ٹی وی پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ اب پارلیمنٹ رہے گی یا چیف جسٹس۔اس سے پہلے وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ رہیں گے یا عمران خان‘ یہ رانا ثناء اللہ کی سوچ نہیں۔رانا ثناء اللہ کسی کی ہدایت پر چمک رہے ہیں۔انہیں یہ ہدایت کہاں سے آ رہی ہے اور کون انہیں ٹکرائو پر ڈٹے رہنے کا کہہ رہا ہے دراصل اسی پردہ نشین دماغ کا تجزیہ بتا سکتا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان پاکستان کے سیاسی میدان میں لڑی جانے والی پراکسی میں پاکستان کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ حالیہ دنوں پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا دور ہوا۔میرے سامنے 2014ء کے دھرنے کے اختتام پر ہونے والے مذاکرات کا ماڈل موجود ہے۔تب بھی اسحاق ڈار نے وقت ضائع کیا۔آرمی پبلک سکول کا سانحہ نہ ہوتا تو دھرنے کے نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔اس بار حکومت کی مشکل یہ ہے کہ عدلیہ میں اس کے حامی تو ہیں لیکن سردست وہ عدلیہ کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں کر پا رہی۔حکومت جسٹس سجاد علی شاہ کا حوالہ بطور دھمکی استعمال کر رہی ہے لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس بار چیف جسٹس پر کوئی وار ہوا تو پوری پی ٹی آئی سڑکوں پر آ جائے گی۔صرف یہی نہیں بلکہ وکلا کی تحریک شروع ہونے کے امکانات موجود ہیں جسے حکومت کے حامی وکلا رہنما روک نہیں سکیں گے۔مذاکرات کا سلسلہ اس وقت ختم سمجھا جانا چاہیے جب پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کاروں نے مشترکہ اعلامیہ میں اس بات پر اتفاق کا مژدہ سنایا کہ وہ ایک روز انتخابات کرانے پر متفق ہیں۔مذاکرات کا بنیادی سوال تو آئین کی عاید کردہ شرط کے مطابق اسمبلی تحلیل کے 90روز کے اندر انتخابات کران تھا۔جب اس سوال پر بات ہی نہیں ہو سکی تو مذاکرات کیسے اور کیسی آئین پسندی؟ مذاکرات کے فریق اسٹیبلشمنٹ‘ پی ڈی ایم‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور نادیدہ قوتیں ہیں۔جو لوگ مکالمہ نہیں چاہتے ان میں سرفہرست نواز شریف‘ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔ جو لوگ چاہتے ہیں بات بنی رہے‘ ان میں آصف علی زرداری‘ چودھری شجاعت حسین‘ سراج الحق اور پی ڈی ایم میں شامل وہ جماعتیں ہیں جن پر آصف علی زرداری کا اثر ہے۔ان حالات میں مذاکرات کا عمل مسلم لیگ نواز اور جمعیت علما اسلام کے بغیر آگے بڑھا تو اگلے انتخابات سے قبل کوئی نیا میثاق جمہوریت پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف و اس کی اتحادی جماعتوں کے مابین ہو سکتا ہے۔ممکن ہے شاہد خاقان عباسی بھی کچھ دوستوں کے ساتھ اس اتحاد کا حصہ بن جائیں۔یہ میثاق جمہوریت بظاہر سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت اور قومی ایجنڈے پر اتفاق کا امکان پیدا کر سکتا ہے لیکن جو قوتیں اس اتفاق رائے کا حصہ نہیں بنیں گی وہ بدستور ملک میں انتشار اور بدامنی کا باعث بنتی رہیں گی۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو قابو کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر سیاسی انتقام کا نیا شور سنائی دینے لگے گا۔جب تک بحران کے حجم کے مطابق سب پر اثرورسوخ رکھنے والی قوت مذاکرات کی سرپرستی نہیں کرتی ترازو سے مینڈک چھلانگیں لگاتے رہیں گے۔