انیس سونوے کی دہائی ، جس میں جمہوریت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ، امریکی عالمی ایجنڈے کے تحت عالمی اداروں کے قرضوں کی مدد سے معاشی اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا لیکن صرف تین شعبے (ٹیلی کام، توانائی اور بینکنگ) ٍہی بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرسکے وہ بھی تب جب سیاسی پارٹیوں (مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی) کی محاذ آرائی سے مشرف کے مارشل لا کے ذریعے نجات حاصل کی گئی اور اصلاحات کا عمل یکسوئی سے انجام دیا گیا۔ تاہم اس سارے اصلاحاتی عمل کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم اور صحت کے شعبے نجی شعبے میں چلے گئے ، ٹیکسوں کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر آگیا۔ بچت یہ رہی کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اتحادی ہونے کی وجہ سے بیرونی امداد ملتی رہی جس سے بجٹ خسارہ کو قابو کرنے میں مدد ملی۔پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بیرونی قرضوں کی مدد سے کیے گئے اصلاحاتی عمل کے نتیجے میں بیس سال اقتدار میں رہی ہیں۔ مشرف دور میں اگر چہ دونوں جماعتوں کی قیادت ملک سے باہر تھی لیکن ان کے طبقہ جاتی مفادات کی آبیاری جاری رہی۔ امریکی آشیر باد سے مشرف کو اقتدار سے نکال کر انہیں میثاق جمہوریت اور این آر اوکے بعد دوبارہ عنان حکومت سونپا گیا تو ایک اشرافیائی جمہوریت وجود میں آئی جس میں دو سیاسی پارٹیوں نے ایوان اقتدار میں باریاں لگانے کا نظام وضع کیا، احتساب کا عمل جامد رہا ، تعلیم و صحت پر ایک طرف بجٹ کم کردیا گیا تو دوسری طرف بالواسطہ ٹیکسوں کی مشرف دور سے ڈالی گئی روایت کو مزید مستحکم کیا گیا۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات تک صورتحال یہ ہوچکی تھی کہ بیرونی امداد کے سوتے خشک ہوچکے تھے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی مشکل ہوچکی تھی، ٹیکس کا دائرہ کار نہ بڑھ سکا، آئی ایم ایف ناراض تھا اور پیشگی شرائط پورا کیے بغیر مزید قرضہ دینے سے منکر۔ ایک نئی سیاسی پارٹی ، تحریک انصاف ، کو نئے نعروں اور وعدوں کے ساتھ سامنے لایا گیا ، اس نے نہایت ہی سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ بحال تو کرا لیا لیکن اسے وراثتی پارٹیوں نے ناجائز قراردے کر اصلاحات کے حوالے سے آئین سازی کے لیے تعاون سے انکار کردیا۔ یوںعمران حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں ، جس میں کورونا کی وبا اور اس کے معیشت پر منفی اثرات بھی شامل تھے، میں صرف ملک کو دیوالیہ ہونے سے ہی بچایا جاسکا۔ نہ تو معاشی اصلاحات کے لیے درکار آئین سازی پر کام ہوسکا اور نہ ہی ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھ سکا تاکہ ملک کی مالی ساکھ بہتر ہوسکے۔ قرضوں کی ادائیگی خوراک کے ذخائر بیچ کرکی گئی تو آٹے کی قلت پیدا ہوئی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بیرونی قرضے پر سود کی ادائیگی کے بعد حکومت کے لیے جاری اخراجات (تنخواہیں، دفاع) پورا کرنا مشکل ہوگیا۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل یا تو عوام کو نقد امداد کی صورت میں گئی یا پھر صحت کارڈ کے ذریعے۔ اپوزیشن کو احتساب کے شکنجے میں کسنے کاکام بھی کیا گیا لیکن بے نتیجہ۔ عدم ثبوت کی بنیاد پر نیب کے سارے ملزم باہر آگئے۔ تحریک انصاف اقتدار سے نکل گئی اور اپوزیشن نے حکومت سنبھال لی۔ کیا یہ این آار او تھا؟ نواز شریف کے لند ن جانے سے لیکر تحریک انصاف کے پارلیمان سے باہر آنے اور قبل ازوقت انتخابات کی امید پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں توڑنے تک کے عمل کو ایک تسلسل کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ معاشی تنزل، مہنگائی اور تیزی سے بدلتے تزویراتی تناظر میں پاکستان میں جاری سیاسی محاذ آرائی نہایت خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک درجن سابق حکمران پارٹیوں پر مشتمل سیاسی اتحاد حکومت بنائے ہوئے ہے جو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے درپے ہے اپوزیشن کی حکمت عملی حکومت کو آئینی بند گلی میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ اگرچہ ملک کو ہمہ جہتی بحرانوں سے نکالنے کا راستہ ہے ہی یہی کہ متحارب سیاسی پارٹیاں خلوصِ دل سے بات چیت کریں لیکن اس معاملے میں تاخیر ملک کو انتشار کے دہانے تک لے گئی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں نہیں کر رہیں، اس سوال کا جواب دینے سے پہلے طے کرنا ہوگا کہ آیا سیاسی پارٹیاں آزاد کھلاڑی ہیں یا پھر محض مخصوص مفادات کی آلہ کار؟ رکنیت سازی، کارکنوں کی تربیت اور فیصلہ سازی اہم عوامل ہیں جن کا جائزہ کافی دلچسپ حقائق سامنے لاسکتا ہے۔ جو سامنے کی بات ہے وہ یہ کہ سیاسی پارٹیوں کی مقامی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی عوام میں انکی جڑیں۔ اگر ملک مقامی حکومتوں کا نظام ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ یوں سیاسی پارٹیاں ہوا میں معلق ہیں۔ انتخابات کے موقع پر منشور سازی، ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی مہم، یہ بس ایک رسمی کاروائی ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستان کی کم و بیشتر تمام سیاسی پارٹیاں وراثتی اصولوں پر چلتی ہیں۔ یہ چند امیر خاندانوں کی ملکیت ہیں اور انکی لیڈرشپ طے شدہ ہوتی ہے۔ باپ کا سیاسی ترکہ بیٹے، بیٹی یا پھر کسی اور قریبی رشتہ دار کو ملتا ہے۔ ن لیگ کی بات کریں تو نواز شریف کی بیٹی ان کے وارث کے طور پر سامنے آئی ہیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت انکی بیٹی، بینظیر بھٹو، کے ذریعے بلاول بھٹو۔ زرداری تک پہنچی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی حیثیت اور مقام کے تعین میں دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ استعماری (کالونیل) دورسے قائم نظام کی پاسبانی کر رہی ہیں جس نے ایک چھوٹے سے طبقے کی پرورش کی (جاگیروں کی بخشش، نہری نظام اور دریا سے منسلک رقبے کی الاٹمنٹ سے) اور یہ لازمی طور پر عوام کش تھا کہ غریب طبقہ ٹیکس دیتا تھا اور امیر طبقہ مراعات لیتا تھا۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پچھلے پچھتر سالوں سے انیسویں صدی کا تعزیراتی نظام رائج ہے جس میں حکومت وقت کی توہین کرنا جرم ہے۔