سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر کی تین اپریل کی رولنگ کے ساتھ وزیر اعظم اور صدر پاکستان کے احکامات کو بھی منسوخ کر دیا ہے ، مزید برآں ، سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ 9 اپریل بروز ہفتہ کواسمبلی کا اجلاس بلایا جائے،سپیکر عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے اور نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی نہیں کیا جائیگا۔اس کے علاوہ وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کو بھی بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں3 اپریل کو جو بھی فیصلے ہوئے سپریم کورٹ نے انہیں رد کر دیا ہے۔ جبکہ آئین کی شق 96 کے تحت کوئی بھی عدالت ،پارلیمنٹ کے کسی بھی طرح کے اندرونی معاملات میں،یہاں تک کے کہ اسمبلی میں کسی قسم کی بے ضابطگی پر بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔ بہت سارے لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آخر 36 (اے ) اوپر ہونے والی کارروائی کو سپریم کورٹ نے کیوں موخر کیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلانے کا کیوں کہا ، کچھ لوگ اسے شہباز شریف کی 11 اپریل کو نیب عدالت میں پیشی سے منسلک کرکے دیکھ رہے ہیں۔ بہتر نہ ہوتا کہ 36 (اے) والے کیس کا فیصلہ سپیکر کی رولنگ کے اوپر سوموٹو لینے سے پہلے ہوجاتا۔ کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹ ڈالنے کا غیر مشروط حکم دینے کے باعث جو سندھ ہاوس میںسیاسی لوٹوں کی نمائش کئی دن تک کی جاتی رہی اور انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح مختلف ہوٹلو ں میں بند کرکے رکھا جاتا رہا ، اس کا اثر تحریک عدم اعتماد پر نہ پڑتا ،جو اس وقت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر ایک بڑا سوال بن چکا ہے ۔ ہر مہذب اور جمہوری ملک میں ریاستی اداروں کے اختیارات کی تقسیم لازمی ہوتی ہے۔ ہمارے آئین میں بھی مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ میں اختیارات کی تقسیم بہت واضح ہے۔ مگر سات اپریل کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر سوشل میڈیا پر جاری بحث کا جائزہ لیا جائے تو بہت بڑی تعداد کے نزدیک سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پارلیمنٹ کے اختیارات پر عدلیہ کی بالا دستی قائم کر دی ہے۔ مثلاً وزیر اعظم اور اس کی کابینہ مستعفی ہو گئی ، جنھیں انکی مرضی کے بغیر بحال کر دیا گیا ، پارلیمنٹ کو حکم دیا گیا کہ کس دن اور کس وقت کیا کر نا ہے اور کیا نہیں کرنا ، بہت سارے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کے نزدیک اس سے اختیارات کی تقسیم دھندلی ہو کر رہ گئی ہے۔اس فیصلے کے باعث جو سیاسی بھونچال پہلے سے برپا تھا وہ کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔مثلاً اگر تحریک انصاف اجتماعی طور پر تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے تو تقریباً قومی اسمبلی کی چالیس فیصد اور مجموعی طور پچاس فیصد اسمبلیوں کی نشستیں خالی ہو جائیں گی اورقانونی طور پر الیکشن کمیشن پر لازم ہو گا کہ وہ پینتالیس دن کے اندر ضمنی اتنخابات کا انعقاد کرے۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ باقی تمام صوبوںمیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن یہ تمام انتخابات کے انتظامات کر سکتا ہے ؟ اگر الیکشن کمیشن کے سات اپریل کے بیا ن کو درست سمجھ لیا جائے تو لگتا ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ، ظاہر ہے تحریک انصاف اجتماعی استعفے دینے کے بعد خاموشی سے تو ہرگز نہیں بیٹھے گی اور سڑکوں پر احتجاج او ر مظاہر ے کرکے ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ پاکستان کی معاشی حالت پھر سے بگڑتی ہوئی نظر آرہی ہے ، تو عوام کا جینا دو بھر ہوجائیگاجو کہ سماجی اور سیاسی غیریقینی صورتحال کو مزید گہر ا کریگی اور ایسے حالات میں اکثر تشدد کا وقوع پذیر ہونا بعدا ز قیاس نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے تین دن پہلے ایک انگریزی روزنامہ میں چھپنے والی خبر ، جس میںکہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار کے بقول الیکشن کمیشن نوے دن کے اندر انتخابات کے انتظامات نہیں کر سکتا۔ لیکن خبر چھپنے کے چند گھنٹے بعد الیکشن کمیشن نے اس خبر کی شدومد سے تردید کر دی۔ لیکن جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کے انعقا د کے حوالے سے رائے طلب کی، تو اس نے کہا کہ وہ اکتوبر سے پہلے انتخابات نہیں کرواسکتا۔ الیکشن کمیشن کا وہی کہنا جس کی وہ ایک دن پہلے تردید کر چکا تھا، اورسپریم کورٹ کا اسے من وعن تسلیم کرلینا ، بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر ر ہا ہے۔ پی پی پی اور پی ڈی ایم کی جماعتیں با ر بار اعلان کر رہی ہیں کہ وہ اقتدار میں آتے ہی فوری طور پر انتخابی اصلاحات کریں گی۔ گوکہ انہوں نے اسکی جامع تشریح نہیں کی ، لیکن غالب امکان یہی ہے کہ وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کو ختم اور بیرون ملک پاکستانی شہریوں کو انکے ووٹ دینے کے آئینی حق سے لازماًمحروم کریں گی ، جوکہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی بلکہ بیرون ملک پاکستانی شہریوں کو انکے بنیادی حق سے محروم کرنے کے مترادف بھی ہوگا۔لگتا یہی ہے کہ جو انتخابی اصلاحات تحریک انصاف کی حکومت نے کی تھیں،انھیںختم کر دیا جائیگا۔ اگر ایسا ہواتو بیرون ملک پاکستانی شہریو ں میں شدید غم و غصہ جنم لے گا۔ اسکے علاوہ ،جو دہشت گرد پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ متحرک ہیں وہ بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کو شش کریں گے ۔ پاکستان اس گھمبیر صورتحال کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ، جس سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ تمام اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا فوراًاعلان کیا جائے۔