لفظ نیوٹرل کی تفہیم‘ تشریح اور تجزیاتی رائے میری ذاتی خیال بندی ہے۔اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں مگر اس حوالے سے راقم کے منتشر شذرات درج ذیل ہیں۔یہ راقم کی اپنے تئیں تفہیم کی کوشش ہے۔ممکن ہے قارئین کے بھی کام آئے عمران خاں کی حکومت کے خلاف 10اپریل 2022ء کو عدم اعتماد تحریک پارلیمنٹ میں کامیاب ہوئی۔عمران خاں نے کئی چھوٹے بڑے کام کئے۔مگر اہم ترین کام سٹیٹ بنک آف پاکستان کے بارے میں قانون سازی ہے ۔اگر پاکستان کی سرحدی سلامتی کا ضامن GHQہے تو معاشی آزادی کا ضامن SBPہے۔ عمران خاں کی آمد آمد کی خبر کے ساتھ ہی قومی ذرائع ابلاغ (میڈیا) میں یہ بات آ گئی تھی کہ عالمی قوتیں اور ادارے SBP کی خود مختار نجکاری چاہتے ہیں، عالمی قوتوں اور اداروں نے جو چاہا‘ وہ پایا۔سابق حکومت نے معاشی پالیسی اصلاحات اور ترجیحات کی بنیاد پر بجٹ بازی یا بجٹ سازی کے لئے آئی ایم ایف سے اتنا قرض لیا جس کی مثال پاکستان کی ساری تاریخ میں نہیں۔نیزجتنا قرض لیا اس کے مطابق آئی ایم ایف کی تابعداری بھی کی۔جس کے نتیجے میں حکومت نے پارلیمانی اقدامات کے ذریعےSBP کو انتظامی یعنی اہلکاروں گورنر اور بورڈ آف گورنرز کو مالیاتی پالیسی میں خود مختاری فراہم کر دی۔ جس کے مطابق اب پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے مناصب عہدے اور اہلکار بشمول صدر‘ وزیر اعظم اور آرمی چیف تمام پاکستانی ادارے بے معنی اور مہمل ہو گئے تھے ۔دریں تناظر پاکستان کی موجودہ جملہ قوتیں جمہوریت اور عالمی یکجہتی کی پالیسی میں رہنے کی راہیں نکال رہی ہیں ،یہ راہیں کیا ہیں ،اس پر علیحدہ بات اور بحث کی جائے گی۔یاد رہے کہ ریاست کی سلامتی عسکری اور معاشی آزادی میں پنہاں ہے۔اس وقت پاکستان کی موٹرویز‘ شارعات‘ باغات‘ مطارات یعنی ایئر پورٹ وغیرہ کے جملہ محاصل کی وصولی سمیت سب کچھ آئی ایم ایف کے مرہون منت ہیں۔اس بجٹ بازی کے کھیل میں ریاست اور ریاستی باشندے پریشانی اور بدحالی کی بدترین تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ روسی شکست و ریخت کے بعد واحد عالمی قوت بن کر ابھرا، امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی باعزت رخصتی اور تبدیلی کے وقت کہا تھا کہ پرویزی تبدیلی شخصی ہے ،پالیسی کی نہیں ہے۔نیز اب پاکستان پرویزی پالیسی کے ساتھ جمہوریت پر گامزن رہنے کا پابند ہے۔پاکستان کی پالیسی اور جمہوریت امریکہ کی عالمی یکجہتی کی مرہون منت ہے۔ لہٰذا پاکستان کی جملہ سول ملٹری مقتدر اشرافیہ عالمی یکجہتی اور مغربی جمہوریت کی وفاداری کے ساتھ پابند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقتدر اشرافیہ کے نیوٹرل ہونے کی سب سے کاری ضری نیازی سرکار پر پڑی ہے۔راقم کا گمان ہے کہ نیوٹرل اشرافیہ کی موجودہ نیوٹرل پالیسی جملہ متعلقہ قوتیں بشمول عمران خاں سے باہمی مشورت سے اپنائی گئی ہے۔ اس کا فوری مقصد جمہوریت کا تسلسل اور مقتدر ادارے کو الیکشن سے پہلے عوامی چھینٹوں‘ یعنی عوام کی تنقیدی بلکہ باغی مذمت سے بچانا ہے۔پاکستان کی ساری سول ملٹری قوتیں عالمی یکجہتی کی مکمل حاوی اور معاون نہیں قومی مزاحمت ہمیشہ رہی ہے۔ شہید ملت لیاقت علی خان اور نواز شریف سیاسی مزاحمت کا استعارہ ہیں۔نواز شریف کی خود انحصاری کی تحریک شریعت بل ‘ جوہری دھماکے اور جنرل ضیاء الحق کا منہ بولا بیٹا کہلانا اور جنرل ضیاء الحق کا اپنی عمر بھی نواز شریف کو دینے کی دعا دینا مزاحمت کی نشاندہی ہے۔جبکہ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق قومی عسکری مزاحمت کا استعارہ ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو جنرل پرویز مشرف اور عمران خاںعالمی یکجہتی کا استعارہ ہیں۔بینظیر اور زرداری بھٹو کے وفادار پیرو کار ہیں۔اس وقت پاکستان کی جملہ سیاسی و عسکری قوتیں یکسوئی کے ساتھ عالمی پالیسی اور یکجہتی کا حصہ ہیں۔اقتدار کی آشا انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔انسان کبھی ہار کے باوجود اقتدار کے لئے ادھر ہم‘ ادھر تم کا اعلان کرتا ہے اور کبھی ہم نہیں تو کوئی نہیں‘ نعرہ بلند کرتا ہے۔بقول حفیظ جالندھری : یہ اوپر کا طبقہ خلا ہی خلا ہے ہوا و ہوس کے غبارے چلا چل نیوٹرل رہنے کے فیصلے نے ہر خاص و عام کو حیران کر دیا ۔قرائن کے مطابق عمران کو اقتدار میں لانا اور رکھنا ناممکن تھا مگر جو ہر دم پردم ہیں، وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔پی ڈی ایم (پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ) کی پارلیمانی تبدیلی کی پہلی سازی کوششیں بوجوہ ناکام رہیں جبکہ نیازی کابینہ کے بعض اہم وزراء کا کہنا ہے کہ ہماری خصتی کا پیغام 2021ء کے اواخر میں پہنچا دیا گیا تھا۔ لہٰذا آنے والوں کے لئے معاشی بارودی سرنگیں بچھانے کا بندوبست کیا گیا ۔اس کا مطلب نیوٹرل رہنے کا فیصلہ بھی باہمی مشورت سے کیا گیا؟پی پی پی عالمی یکجہتی کی سب سے پرانی کھلاڑی ہے بہاولپور فضائی سازش 7اگست 1988ء کے بعد بلکہ جونیجو کی جنیوا پالیسی سے عالمی یکجہتی کی موجودہ لہر اور رجحان کا آغاز ہوتا ہے۔ جس میں حسب ضرورت اداروں کی حمایت اور اعانت بھی بروئے کار لائی گئی۔جنرل پرویز مشرف کے دور سے پی پی پی (بینظیر اور زرداری) کا سیاسی کردار کلیدی رہا ہے۔جنرل پرویز مشرف کو لانے ‘ چلانے اور واپس لے جانے میں پی پی پی کے پارلیمنٹرین گروپ کا اہم کردار رہا ہے جبکہ مذہبی حلقوں کی مرضی مولانا فضل الرحمن کی خوشنودی میں مضمر رکھی گئی۔پرویز مشرف سے عمران کے اقتدار کے ایوانوں کی نظریاتی اور انتظامی رونق کا سہرا ہر دو صورت پی پی پی کے سر کا تاج رہا ہے۔جب نیوٹرل ہونے کے اعلان نے سب کو مبہوت کیا تو یہ کہنا پڑا کہ سیاسی کھلاڑی اپنا کھیل خود کھیلیں اور اس ضمن میں زرداری صاحب سے رابطہ قائم کیا گیا اور انہوں نے اپنے سیاسی اور جمہوری تجربہ کے نچوڑ کے طور پر موجودہ سیٹ اپ یعنی شہباز سرکار کی تجویز دی جو مان لی گئی اور ادارے کے لئے نیوٹرل ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔ اگر نیوٹرل راہ بندی کا عمیق گہرا جائزہ لیا جائے تو نیوٹرلز نے کھیل کی کنجی زرداری صاحب کے ہاتھ میں تھمائی اور زرداری صاحب نے شہباز سرکار سازی کی شہباز سرکار کو معاشی بہتری کیلئے ڈیڑھ سال کا مینڈیٹ دیا گیا۔ شہباز سرکار کا پہلا مرحلہ معاشی گھاٹی سے گزرنا تھا جبکہ دوسرا مرحلہ چین کی مالیاتی حمایت اور اعانت سے آئی ایم ایف کی سب رنگ اجارہ داری کا زور توڑنا اور ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچا کر عوام کی بھلائی‘ بہتری اور ریلیف دینا ہے ۔شہباز سرکار نے اسحاق ڈار کی عدم موجودگی کے باوجود گھاٹی کے سود و زیاں کو قبول کیا اور موجودہ بجٹ سازی میں چین کی کمترین شرح پر مالیاتی امداد اور آئی ایم ایف کے معاشی پیکیج کی رقم کو عوامی ریلیف کے لئے محفوظ رکھا ہے۔ یعنی انہوں نے مستقبل کے لئے بارودی سرنگ کے بجائے سنہری سرنگ بچھائی ہے تاکہ مستقبل میں پریشانی موجودہ اور سابقہ دور جیسی نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ شہباز سرکار کا دوسرا مرحلہ کس نے دیکھا ہے؟موجودہ سرکار کے کلید بردار کا فرمان تھا اور غالباً آج بھی عملاً وہی ہو گا کہ سیاسی وعدے اور معاہدے حدیث شریف نہیں ہیں۔نظریاتی اختلاف چھوٹا بھی ہو تو بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔بقول نصیر احمد زار : تمہاری یہ دشمن آشنائی ہماری یہ دوست ناشناسی بڑی بڑی مشکلات بن کے کھڑی ہیں باتیں ذرا ذرا سی