مری کے برفانی طوفان میں پھنس کر 23افرادجاں بحق ہونے اور ہزاروں لوگوں کو ہونے والی پریشانی نے ملک میں سیاحت کے مسائل کو اجاگر کردیا ہے۔ اس سانحہ نے ہر خاص و عام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ لوگ غصّہ میں ہیں کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ نے اس سانحہ کو رُونما ہونے سے روکنے کی غرض سے احتیاطی اقدامات کیوں نہیں کیے اور جب لوگ مشکل میںپھنس گئے تھے تو انہیں بروقت امداد کیوں نہیں پہنچائی گئی۔لیکن مری کے افسوس ناک واقعہ کو منفی سوچ پھیلانے کی بجائے ہمیں اپنے سیاحتی نظام کو بہتر‘ محفوظ اور خوشگوار بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ مری ایک ایسا سیاحتی مقام ہے جس کے وسائل اور سہولیات محدود ہیں لیکن سیاحوں کا ہجوم روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دیگر پہاڑی مقامات کی نسبت یہ میدانی علاقوں سے زیادہ نزدیک ہے ۔زیادہ لوگ آسانی سے کم وقت اور کم بجٹ میں اس خوب صورت مقام پرجاسکتے ہیں۔ راولپنڈی سے محض ایک گھنٹے کی مسافت ہے۔کچھ برس پہلے یہاں جانے کو ایک بڑی ایکسپریس وے بنا دی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ پرانی سڑک موجود ہے۔ڈیڑھ سو سال پہلے انگریزوں نے مری کو بیمار لوگوںخاص طور سے ٹی بی کے مریضوں کے رہنے کی غرض سے ایک صحت افزا مقام یا سینی ٹوریم کے طور پرآباد کیا تھا۔ بعد میں یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی مقام بن گیا۔ یہاں پانی فراہم کرنے کی خاطر نتھیا گلی کے نواح میںواقع ڈونگا گلی میںپانی کا تالاب بنایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں بے تحاشاتعداد میں ہوٹل تعمیر کرلیے گئے۔اس بات کو نظر انداز کردیا گیا کہ کہ چھوٹے سے پہاڑی مقام کی گنجائش اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔پراپرٹی کے کاروبار میں دل چسپی حد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ پندرہ سولہ سال پہلے مری کے قریب ایک نیا شہر بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جو خدا کا شکر ہے سرد خانہ کی نذر ہوگیا۔ اگر اس منصوبہ پر عمل درآمد ہوجاتا تو ہزاروں درخت کاٹنے پڑتے اوراس پر فضا مقام پر ٹریفک اتنی بڑھ جاتی کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا۔ پانی کا بندوبست کرنا انتہائی مشکل اور مہنگا سودا ہوتا۔ جوں جوں پاکستان میں لوگوں کی آمدن بڑھتی جارہی ہے دُور دراز سے لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے لوگ تعطیلات کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہاڑی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ ذاتی کاروں میں سیاحتی مقامات پر جانے والے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔حالیہ حادثہ کے تین دنوں میں مری کی برف باری سے لطف اندوز ہونے کی خاطر جانے والوںکی تعداد ڈیڑھ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے ملک کے شہریوں کا اس پیمانے پر سیاحت کے لیے جانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ تبدیلی گزشتہ دس بارہ برسوں میں آئی ہے۔ دن بدن یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ہنزہ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میںاندازہ لگایا گیا ہے کہ گزشتہ برس گلگت اور بلتستان میں بیس لاکھ سیاح گئے۔صرف سکردو میںموسم گرمامیں سات لاکھ۔ چند ہفتے پہلے وزیراعظم عمران خان نے سکردو کے بین الاقوامی ہوائی اڈّہ اور سکردو سے گلگت جانے والی سڑک کا افتتاح کیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اِن منصوبوں کی تکمیل سے سیاحت بڑھے گی۔تاہم مری کے حادثہ کے بعد ملکی اور غیرملکی سیاحوں کا اعتماد بحال کرنے میںکچھ وقت لگے گا۔ بلا شبہ پاکستان کے شمالی علاقے دنیا کے حسین ترین مقامات میں شامل ہیں لیکن ہم ان سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔سیاحت بڑھانے کی خاطر مقامات کی خوبصورتی ‘ دلکشی کافی نہیں۔ ان جگہوں پر امن و امان اور تحفظ کی اچھی صورتحال اور قیام و طعام کی سہولیات‘ صفائی ستھرائی اور بااخلاق میزبانی ایسی چیزوں کا ہونا بھی لازمی عوامل ہیں۔مری کے افسوس ناک واقعہ کے بعد سیاحتی مقامات کی خامیاں پہلے سے بھی زیادہ واضح ہوگئی ہے ۔پہاڑی علاقوں میں سیاحت کے باعث کوڑے اور کچرے کے ڈھیر لگ رہے ہیں جنہیں اٹھانے کا مناسب بندوبست نہیں ہے۔ نکاسی آب کے نظام بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔ ہمارے اداروں کو برف ہٹانے کی بھاری مشینری اور طوفانی حالات میں امدادی سرگرمیاں کرنے کے لیے جدید طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔ مری کی مقامی آبادی کے سیاحوں سے لوٹ کھسوٹ پر مبنی رویہ پر کئی برسوں سے شکایات عام ہیں۔ان وجوہات کی بنا پر چند سال پہلے اس مقام کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ لیکن کچھ وقفہ کے بعد یہ لوگ پھر اپنی پرانی ڈگر پر واپس آگئے۔ نجی شعبہ کی بہت تعریف کی جاتی ہے لیکن سب جگہوں پر نجی شعبہ کی اجارہ داری جو مسائل پیدا کرتی ہے اس میں مری ایک بڑی مثال ہے۔اگر ٹورازم محکمہ ان نجی ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کو ریگولیٹ کرے تو بہت سی شکایات دور ہوسکتی ہیں۔ گلگت اوربلتستان میں مقامی لوگ اور تاجر مہمان نواز ہیں لیکن یہاں بنیادی سہولیات کا خاصا فقدان ہے۔گزشتہ برس گرمی کے موسم میں سکردو میں اتنے سیاح چلے گئے تھے کہ ہوٹلوں میں گنجائش کم پڑ گئی تھی اور لوگوں نے کاروں میں رہ کر وقت گزارا تھا۔ گلگت اور بلتستان میںسارا سال بجلی کی لوڈ شیڈنگ عام ہے۔ سردیوں میںیہ وہاں رہنے والوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ امید ہے کہ بھاشا دیا میر ڈیم بننے کے بعد اس سے بننے والی بجلی کو ترجیحی بنیادوں پر گلگت اور بلتستان کے علاقوں کو مہیا کیا جائے گا۔ اس دور دراز علاقہ میں ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا مسئلہ بھی رہتا ہے۔ میدانی علاقوں کے سیاح سرد مقامات پر جاتے ہیں تو انہیںبلند مقام پر ٹھنڈ لگنے سے تکلیف ہوسکتی ہے۔ حکومت یہاں پر ڈاکٹروں کی تعیناتی اور ضروری طبی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ سیاحت کا فروغ معیشت کے لیے اچھی بات ہے لیکن اسکے منفی پہلو بھی ہیں۔ خاص طور سے ماحولیات کے اعتبار سے۔ پہاڑی علاقوں میںدھڑا دھڑ کنکریٹ کی عمارتیں بنائی جارہی ہیں جو وہاں کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان علاقوں کے لیے لکڑی سے بنی عمارتیں آب و ہوا اور ماحول سے مناسبت رکھتی ہیں۔ حکومت کو عمارتوں کے لیے کوئی قانون اور ضوابط بنا کر اس پر عمل کروانا چاہیے۔بڑے پیمانے پر سیاحت ہمارے ملک میں نسبتاً ایک نیا کاروبار ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے نت نئے مسائل اور اس کی مینجمینٹ سیکھنے کے لیے ہمیں دنیا کے تجربہ کار ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہیے۔ حکومت بیرون ممالک سے سیاحت کے ماہرین اور ملکی ماہرین پر مشتمل کمیشن بنائے جو پاکستان میں سیاحت کے فروغ اور سیاحتی مقامات میں مسائل و مشکلات کی نشان دہی کریں اور وہاں سہولیات بہتر بنانے کی سفارشات پر مبنی ایک جامع حکمت عملی بنا کر دیں اور اس پر عمل کیا جائے۔