20 صفر اُلمظفر ( 30 اکتوبر کو ) پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے ’’ سیّد اُلشہدا‘‘ امامِ عالی مقام سیّدنا امام حسینؑ اور اُن کے 72 ساتھیوں ’’شہدائے کربلاؑ ‘‘کے یومِ ختم ،چہلم کے موقع پر عقیدت و احترام سے ، تقریبات کا اہتمام کِیا۔ 30 اکتوبر ہی کو لاہور میں رونق افروز ، سیّد علی ہجویری ، حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس مبارک پر تین روزہ تقریبات کے اختتام تک دُنیا کے مختلف ممالک سے حاضری دینے والے عقیدت مند ’’ فیضِ عالم ‘‘ سے برکتیں سمیٹتے رہے ۔ چشتیہ سِلسلے کے بانی،خواجہ غریب نواز ، حضرت معین اُلدّین چشتیؒ 587 ہجری (1191ء ) میں لاہور تشریف لائے تو آپؒ نے حضرت داتا صاحب ، سیّد علی ہجویری ؒ کے مزارِ اقدس کے احاطے میں چِلّہ کشی فرمائی اور حضرت داتا صاحب ؒ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے کہا کہ … گنج بخشِ ، فیضِ عالم ، مظہرِ نُورِ خُدا! ناقِصاں را، پیر کامل، کامِلاں را، راہنما! یعنی۔ ’’حضرت داتا صاحب سیّد علی ہجویری، خزانہ بخشنے والے ، تمام مخلوقات کو فائدہ پہنچانے والے ، اللہ تعالیٰ کا نور ظاہر کرنے والے ، عام اِنسانوں کے لئے پیر کامل اور پیرانِ کامل کو سیدھا راستہ دِکھانے والے ہیں‘‘۔ چِلّہ کشی کے بعد خواجہ غریب نواز ؒاپنے خلیفہ حضرت خواجہ قطب اُلدّین بختیار کاکیؒ اور دوسرے مریدوں کے ساتھ 5/4 سال ملتان میں رہے ۔ وہاں آپؒ نے ( اور آپ کے خلیفہ اور مریدوں نے بھی ) ہندی زبان سیکھی اور کئی دوسری علاقائی زبانیں بھی ، پھر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تبلیغ اسلام شروع کی۔ معزز قارئین!۔ میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر ؔسے تھا ۔ جنہوں نے 1193ء میں حضرت خواجہ غریب نوازکے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ مَیں نے ہوش سنبھالا تو ، میرے والد صاحب ، تحریکِ پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان نے مجھے اپنے پیر و مُرشد خواجہ غریب نوازؒ اور دوسرے اولیاء کرام ؒ کے کار ہائے نمایاں سے متعارف کرانا شروع کِیا ۔ قیام پاکستان کے بعد ، ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا ؔمیں آباد ہُوا ۔ مَیں1953ء میں ، ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا جب، پہلی بار میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار میں بھی ۔مَیں نے اُن کی قیادت میں ، حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی چِلّہ گاہ پر حاضری دِی ۔ اُس کے بعد حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار اقدس پر !۔بعد ازاں جب بھی مَیں نے اپنے افراد خانہ اور دوستوں کے ساتھ دربار حضرت داتا صاحبؒ پر حاضری دِی تو، پہلے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی چِلّہ گاہ پر !۔ 18 دسمبر 2013ء کو گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو دربار حضرت داتا صاحب میں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے "Solar Filtration Plant" نصب کرنا تھا ۔ وہ مجھے اور 1981ء سے گلاسگو میں میرے دوست ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی اور کئی اصحاب کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ گورنر صاحب ’’بابائے امن ‘‘ اور دوسرے اصحاب "Direct" حضرت داتا صاحبؒ کے تخت کے قریب چلے گئے اور مَیں ’’حسب روایت و عادت‘‘ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی چلّہ گاہ پر ۔ چودھری محمد سرور اور دوسرے اصحاب سے میری بعد میں ملاقات ہُوئی۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور اپنی پہلی نعت اردو زبان میں لکھی ۔ 1960ء میں پنجابی زبان میں شاعری شروع کی اور مسلک صحافت بھی اختیار کرلِیا۔ 1961ء میں گریجوایشن سے پہلے ، مجھے حضرت غریب نواز ؒ کے یہ فارسی اشعار پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تو، میرا دماغ روشن ہوگیا کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے تو ، حسینیت کا عَلم بلند کر کے تبلیغ اسلام شروع کی تھی۔ فرماتے ہیں کہ … شاہ ہَست حُسینؑ، پادشاہ ہَست حُسینؑ! دِیں ہَست حُسینؑ ، دِیں پناہ ہَست حُسینؑ! سَردَاد ، نَداد دَست ، در دَستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہَست حُسینؑ! یعنی۔ ’’ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسین ؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسینؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔مَیں 1969ء میں سرگودھا سے لاہور شِفٹ ہوگیا تھا ۔11 جولائی 1973ء کو مَیں نے اپنا روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور جاری کِیا ۔1980ء کے اوائل میں میرے خواب میں ،خواجہ غریب نوازؒ ،میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو ،وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکت سے میرے لئے ،مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے ۔ ستمبر 1983ء میں مجھے خواب میں کسی غیبی طاقت نے دلدل سے باہر نکالا اور مجھے بتایا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایۂ شفقت ہے!‘‘۔ اِس سے پہلے مَیں مولا علی ؑ اور دوسرے آئمہ اطہار اور اہل بیت ؑ کے بارے میں کئی منقبتیں لکھ چکا تھا۔ ستمبر 1991ء میں مجھے ، صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ اُن کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ جون 2014ء میں جب اجمیر شریف میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے دربار میں حاضری دینے کے بعد ، مَیں اجمیر شریف کی گلیوں میں گھومتا پھرتا اپنے بزرگوں کے گھروں کا بھی تصّور کر رہا تھا ۔مَیں نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی شان میں بھی پنجابی اور اردو میں دو منقبتیں لکھیں۔ 4 فروری 2018ء کومیرے کالم میں میری حسرت بھری منقبت ’’ جے کربل وِچ ّ مَیں وِی ہوندا ‘‘ کے عنوان سے شائع ہُوئی تو ، ’’تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ پاکستان ‘‘ کے سربراہ اور حقیقی معنوں میں درویش آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی کی طرف سے کئی کتابوں کے مصنف اور دانشور انجینئر سیّد عباس کاظمی نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ آغا جی کا اپنے تمام رفقاء کے یہی فرمان / پیغام ہے کہ’’ آج سے اثر چوہان صاحب کو حسینی راجپوتؔ کہا جائے!‘‘۔ معزز قارئین !۔ اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد کے حوالے سے حضرت داتا گنج بخشؒ میرے لئے پیرانِ پیر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ ؒ نے اپنی تصنیف ’’کشف اُلمحجوب ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ لوگ مجھے گنج بخشؒ کہتے ہیں لیکن ، حقیقت میں گنج بخش تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ مَیں تو ، ایک دانہ گندم بھی اپنے پاس رکھنے کا روادار نہیں ہُوں‘‘۔ ایک اہم بات کہ بہت سے ’’ گنج ہائے نامعلوم‘‘ کے مالک نااہل ؔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں یوم اقبالؒ کے موقع پر الحمراء لاہور میں ’’ مفسر نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں ، حضرت داتا گنج بخشؒ کے نام پر ’’ ہجویری یونیورسٹی‘‘ کے قیام کا اعلان / وعدہ کِیا تھا ۔ میاں نواز شریف ، شہباز شریف ، اُن کی آل اولاد اور مفرور ملزم اسحاق ڈار کی کئی کمپنیوں کے ناموں میں ’’ہجویری ‘‘ شامل کِیا گیا ہے ۔اسحاق ڈار نے تو جون 2013ء میں وزارتِ خزانہ کا حلف اٹھاتے ہی یہ دعویٰ کِیا تھا کہ ’’ مجھے حضرت داتا گنج بخشؒ نے لاہور سے "On Deputation" وزیر خزانہ بنا کر اسلام آباد بھیجا ہے ‘‘۔ 10 دسمبر 2014ء کو حضرت داتا گنج بخشؒ کے 971 ویں عُرس مبارک کے موقع پر ’’ ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان ‘‘ لاہور کی ایک تقریب میں ’’نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید نے تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اوقاف میاں عطا محمد مانیکا ؔسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ مانیکا صاحب ! وزیراعظم میاں نواز شریف سے پوچھ کر بتائیں کہ ’’ وہ لاہور میں ’’ ہجویری یونیورسٹی‘‘ کب قائم کر رہے ہیں ؟۔ معزز قارئین! ۔ اب جس سے بھی پوچھنا ہے وہ تو حضرت داتا گنج بخشؒ ہی پوچھیں گے ؟۔