ہماری سول بیوروکریسی میں تصنیف و تالیف کا رجحان قدرے معدوم ہوتا جارہا ہے اور اب ان اوصاف کو افسر انہ رعب وداب اور منصبی وجاہت کے زیا دہ شایان نہیں سمجھاجاتا ۔ ماضی قریب میں صورت حال اس سے قدرے مختلف تھی کہ ہر اچھا افسر اپنی زندگی کے مشاہدات وحاصلات اور بالخصوص تجربات وحادثات کو ضرورقلمبند کرتا، تاکہ بالخصوص نسلِ نو اس سے کچھ نہ کچھ استفادہ کرسکے ، بہر حال یہ سلسلہ کمیاب توہے لیکن ابھی نایاب یا ناپید نہیں ۔ سید شفیق حسین بخاری پاکستان کی سول بیوروکریسی کی ایک از حد معتبر اور مقتد ر شخصیت ہیں ۔ سپیریئر سروس آف پاکستان کے پانچویں کامن کے فرد ِ وحید اور سول ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کے ایک جینئس اور ماہر کے طور پراس شعبے میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ ملک کے مختلف خطّوںاور منطقوں میں انتظامی ذمہ داریوں کی بجاآوری ،کمشنر اور سیکرٹری شپ جیسے اعلیٰ مناصب کے علاوہ سکول آف نیشنل مینجمنٹ میں طویل عرصہ گراں قدر خدمات کی انجام دہی کا اعزاز پا چکے ہیں۔ آپ امانت ودیانت سے آراستہ ، وفا و انسان دوستی نجابت و شرافت کا پیکر ہیں ۔ابتدائی طور پر انگریزی زبان و ادب کے استاد مگر فطر ی طور پر تصوفّ و طریقت کی راہوں کے راہی ۔۔۔آپ نسباًنقوی وبخاری سادات کے بطلِ جلیل اور باب مدینہ العلم حضرت علی المرتضیٰ ؓکی ۴۱ویں پشت میں ، اُنکے فرزند ہیں ۔ دنیا کی اعلیٰ دانشگاہوں سے اکتساب ِ علم اور جدید ترین معاشرت سے واسطہ رکھنے کے باوجود اپنی قدیم خاندانی روایات کی ضَواور نور شاہی سادات کی لَو کو کبھی مدہم نہیں ہونے دیا۔آپ کی تصنیف ِخاص "قافلۂ نور " آپ کے آبائی اور خاندانی تذکرے سے مزّین اور آپ کے نسب کی متحقق (Authentic) دستاویز ہے۔ جو اس شعبے میں ایک اہم حوالے کے طور پر معتبر ہے۔ عصرِ حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ روایتی اور مشرقی تناظر کے حامل گھرانوں کے قابل افراد ، جب کسی بڑے منصب تک پہنچتے ہیں تو اپنی قدیمی اور خاندانی روایات سے دامن چھڑانے کے لیے کوشاں ہوجاتے اور اجداد کی نسبتوں سے اِعراض کرنے لگتے ہیں ۔ مگر شاہ صاحب نے نئی روشنی اور جدت کے باوجود اپنے دیہاتی پن کو " کمپرومائز" نہیں ہونے دیا اور اپنی خوشیوں اور فرقتوں کو ہمیشہ اپنے قدیمی علاقے موضع نورشاہ ،جو کہ میلسی کے نواح میں ہے ، سے وابستہ کیے رکھا ۔ سید شفیق حسین بخاری،صاحب ِ تصنیف ہیں تو لا محالہ صاحبِ علم بھی ہیں،مطالعہ پر گرفت بڑی مضبوط ہے،نقد ونظر اور تحقیق وتفحص کے حق کی ادائیگی کے لیے محض دستیاب مصادر پر اکتفانہیں کرتے ، بلکہ وہ سرکاری ریکارڈ جو عام محققین کی دسترس میں نہیں ہوتا ،اس کی بہمِ رسانی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ اسم بامُسمّٰی ہیں، اپنے نام کی طرح مشفق و مہربان ۔ اُنکی زندگی کے شب و ر وز عامۃُ الناس کی دادرسی اور حاجت براری کیلئے وقف ہیں۔ بایں وجہ انہوں نے یہ ایام صوبائی محتسب پنجاب کے دفتر کے لیے مختص کر رکھے ہیں۔ شاہ صاحب سادگی اور درویشی کامرقع اور ایثار و قناعت کا پیکر ہیں، مجھے اپنی زندگی کے پرائم ٹائم میں طویل عرصہ حضرت شاہ صاحب کی رفاقت میسر رہی ۔ ان کی مصاحبت میں بڑے بڑے معرکے درپیش ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے سرخروئی فرمائی ، بطور چیف ایڈ منسٹریٹر اوقاف پنجاب ، انہوں نے پنجاب کی کئی نمائندہ درگاہوں کی سجادگی کے فیصلے کیے ، کورٹ کے آغاز سے قبل وضو کا اہتمام کرتے اور پھر انصاف اور دیانت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے ، حضرت علی المر تضیٰؓ کے اس قول کا پرچم سر بلند فرماتے کہ کوئی سلطنت ، نظام ، محکمہ یا ادارہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے ، مگر ظلم کے ساتھ نہیں ۔ یہ سطور قارئین تک پہنچنے کا شان ِنزول یہ ہواکہ محترم سیّد شفیق حسین بخاری نے زیر ترتیب اپنی تازہ تصنیف "کاروان ِتصوّف اور اقبال" کا مسودہ ارسال کرتے ہوئے ، اس پر کچھ طبع آزمائی کا اعزاز بخشا ۔لاہور اور اہل لاہور کی پر داخت میں داتاؒ دربار ، شاعرِ مشرق، بادشاہی مسجد ، مینار ِ پاکستان اور دریائے راوی کی اپنی اپنی خاصیت ، تاثیر ، استعداداور صلاحیت کا بڑا دخل ہے ، یہ " عناصر ِ ستّہ" باہم یکجا ہو کر لاہور اور اہل لاہور کا مزاج ترتیب دیتے ہیں ، جس میں ایک خاص رچائو، فراخی اور حوصلہ مندی ہے ۔ شاہ صاحب اقبال کے نظریہ تصوّف کے مداح ، مگر اس سے پہلے حضرت سیّد ہجویر ؒ کے بھی دریوزہ گر ہیں ۔ آپ حسینی ، نقوی اور بخار ی سادات ہیں اور اقبال، ان سادات کا مرید اور عقیدت مند --- بقول اقبال :۔ پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال یہ گہنگار بوترابی ہے اقبال مزید آگے بڑھتے ہیں :۔ جہاں سے پلتی تھی اقبال روح قنبر کی مجھے بھی ملتی ہے روزی اُسی خزینے سے ہمیشہ وردِ زباں ہے علی کا نام اقبال پیاس روح کی بُجھتی ہے اس نگینے سے اقبالؔ اپنی فکر ،طرز ِ زیست اور اسلوب ِ حیات میں بو علی قلندر ؒ، سیّد علی ہجویریؒ اور باب مدینۃ العلم سیّد علی المرتضی ؓ سے از حد متاثر اور ان شخصیات کو قوت ، تصادم ، غلبے اور جہاد کا اعلیٰ ترین استعارہ بلکہ نشانِ راہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جو راستہ متعین کیا ، وہ حضرت ِ ہجویر ی ؒ کے نقشِ قدم اور نقشِ قلم کا راستہ تھا ۔ جس میں مخالف مادی قوتوں سے گریز نہیں ،بلکہ اُ ن سے ایسی آویزیش ، تصادم اور نبر د آزمائی، جس کے نتیجہ میں ، ان کی تسخیر مقصودہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسی میں انسانی زندگی کی رمزِ بقا اور اسلامی معاشرے کا رازِ حیات پنہاں ہے ۔ انہوں نے ابتلا اور زوال کے دور میں اُمّت مسلمہ کو حضرت علی المرتضیٰؓ کی ، اس فکر کی طرف متوجہ کیا ، جس کے مطابق زندگی صرف اور صرف قوت کا نام ہے اور اس کی حقیقت غلبہ اور اِستیلاہے ۔ شاہ صاحب مولائی اور بوذری ہیں ،ساری زندگی انہوں نے دوسروں کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کی اور از خود فقر و تصوّف کی اِسی روایت کے امین رہے ۔ حضرت سلطان المشائخ نظام اولیاء فوائد الفواد میں فرماتے ہیں کہ معراج کی رات ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فقر کا خرقہ عطا ہوا اور فرمایا کہ یہ اس کو عطا ہوگا جو سوال کا درست جواب دے ۔ پھر حضرت سیّدنا ابو بکر ؓکو پوچھا گیا کہ اگر یہ خرقہ تمہیں ملے تو کیا کروگے ؟عرض کی :صدق اختیار کروں گا اور اطاعت عطا کروں گا۔ پھر عمر فاروق ؓ سے پوچھا گیا تو عرض گزارہوئے ، مَیں عدل و انصاف کروں گا ، حضرت عثمان غنی ؓ نے عرض کی :انفاق (عطا و کرم)اختیار اور سخاوت ارزاں کروں گا ، پھر حضرت علی المرتضیٰؓ سے پوچھا ، تو انہوں نے عرض کی :مَیں پردہ پوشی کروں گا اور بندگان ِ خدا کے عیب چھپائوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ خرقہ لے لو ،مجھے یہ ہی حکم تھا کہ جو صحابی یہ جواب دے اُسے یہ "خرقۂ فقر" دے دوں ۔