تمام تر شبہات اور غیر یقینی حالات کے باوجود اب آٹھ فروری کو انتخابات ہو گئے ہیں۔اس دوران اہم سوال یہ ہے کہ انتخابات کے بعد سیاسی صورتحال کیا ہو گی ۔ سیاسی مبصرین کی جانب سے اب تک جو تجزیئے پیش کئے گئے ہیں ان کے مطابق قومی اسمبلی میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت نہیں لے سکے گی ۔پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پپلز پارٹی اوراستحکام پاکستان پارٹی قومی اسمبلی میں اگرچہ بڑی سیاسی جماعتیں بن کر سامنے آئینگی اور کوئی دو بڑی جماعتیں دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دے سکینگی۔اس ضمن میںآزاد ارکان کا کردار بھی بہت اہم ہوگا کیونکہ اس بار تحریک انصاف سیاسی جماعت کی حیثیت سے ان انتخابات سے باہر ہے اور اس کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت اور مختلف نشانات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور یہ گمان کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی جیت کے بعد جو فیصلہ کرینگے ا س سے ہی مستقبل کی سیاست کا تعین ہوگا۔اگر نتائج اسی طرح کے ہوئے تو یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کی سیاست کو جس استحکام کی شدید ضرورت ہے اس کی منزل ابھی بہت دور ہے ۔ قرضوں کے بوجھ تلے معیشت ،دہشت گردی سے قومی سلامتی کو درپیش خطرات ،مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بڑھتی کشیدگی ،داخلی سطح پر موجود غربت ، بے روزگاری ،سماجی بے چینی اور سیاسی خلفشار اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو ،اہم فیصلے بروقت ہوں اور حکومت میں تسلسل ہو ۔ مخلوط حکومت میںیہ سب ممکن نہیں ہو سکے گا ۔گزشتہ سال اپریل میں اس کا ( تلخ ) تجربہ کیا جاچکا ہے جب پی۔ڈی۔ ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی حکومت نے ریاست اور اس کے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا پھر یہ کہ اس حکومت میں شامل کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی خراب کارکردگی کا بوجھ اٹھانے کی روادار نہیں ہوتی۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ذمہ دارانہ حکومتی شراکت داری کا وصف موجود نہیں ہے جس کے باعث مخلوط حکومت کا تجربہ کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ سیاسی سطح پر جو انتشار اور نا پختگی (IMMATURITY) موجود ہے اس سے کسی سیاسی استحکام کی امید ذرا کم ہی ہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت و سیاست کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی جو تاریخ رہی ہے اس نے بھی سیاسی اداروں کو کمزور ہی کیا ہے۔سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کے روئیے بھی پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کے استحکام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہے ہیںیہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ تنازعات اور اعتراضات کی زد میں رہی ہے۔موجودہ انتخابات بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ انتخابی نتائج عوامی آراء سے اگر زیادہ مختلف ہوئے تو سیاسی بے چینی اور عدم استحکام پر قابو پانا مشکل ہو جائیگا۔ پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کے ہر گز متحمل نہیں ہو سکتے کہ سیاسی عدم استحکام جاری رہے۔ سیاسی اور حکومتی نظام میں شامل تمام شرکا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صورتحال کادرست ادراک کرتے ہوئے ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے جائیں۔ سیاسی استحکام منصفانہ انتخابات اور ان کے درست نتائج سے ہے ہی ممکن ہے۔بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی قیادت کی جانب سے انتخابات کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کی روایت موجود نہیں رہی ہے۔ اس روایت کو اب بدلنا ہوگا ۔پاکستان کی سلامتی کے لئے یہ اب ضروری ہو چکا ہے کہ: انتخابی نتائج شفاف اور عوامی آراء کے نزدیک ترین ہوں انتخابات کے بعدہار جانے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی سیاست سے گریز کیا جائے ۔ جو بھی حکومت قائم ہو اسے اس کی آئینی مدت پوری کرنے کا تحفظ حاصل ہو۔ معیشت کی حالت بہتر کرنے کے لئے سیاسی استحکام اور حکومتی پالیسیوں میں تسلسل ہو اور سب سے اہم یہ کہ حکومت وسیاست کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا تاثر ختم ہو ۔ اس ضمن میں سیاسی قیادت کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوری سیاسی عمل کے قیام اور اس کے استحکام کے لئے اپنے طرز عمل میں بنیادی تبدیلیاں لائے ۔ اقتدار کے لئے غیر جمہوری اور غیر سیاسی طریقوں کے بجائے عوامی قوت پر بھروسہ کرے ۔ تحمل ،رواداری ، برداشت اور شراکت اختیار جیسے جمہوری اصولوں پر کاربند رہ کر ہی مثبت سیاسی عمل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔سیاستدانوں کو اب یہ بات سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کا اعتبار اور اعتماد اسی صورت میں قائم اور برقرار رہ سکتا ہے جب وہ جمہوری اقدار کو فروغ دینے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ، غیر سیاسی قوتوںکی سیاسی نظام میں مداخلت اور ان کے اثرات کو بھی جب ہی کم کیا جاسکتا ہے جب سیاست دان سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی تک نہ لے جائیں ۔ پاکستانی سیاست کے موجودہ رجحانات کو بدلے بغیر سیاسی استحکام کا حصول ممکن نہیں ۔ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ پر ہے داخلی اور خارجی سطح پر اس کی سلامتی کو خطرات کا سامنا ہے معاشی حالات جمود اور پسماندگی کی نچلی سطح پر ہیں عوام پریشان اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو رہے ہیں ۔ سیاسی استحکام سے ہی امید کا راستہ واضح ہوگا۔ اس کے لئے سب کو مل کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہونگی۔ امکانات کم ہونے کے باوجود یہ امید تو کی جاسکتی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام ہو ، جمہوری عمل جاری ہو ،عوامی مشکلات کم ہوں اور ریاست کو درپیش سلامتی کے جو مسائل درپیش ہیں انہیں حل کیا جا سکے اور یہ انتخابات پاکستان کے روشن مسقبل کی بنیاد رکھ سکیں۔24 کروڑ عوام سیاست دانوں سے بہتر طرز عمل کی منتظر ہے !!!