ملک بھر میں عام انتخابات میں حصہ لینے والے اکثر امیدواروں کو نتیجہ موصول ہو گیا ہے۔آزاد امیدوار کی بڑی تعداد قومی اسمبلی، خیبر پختونخوا اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پہنچی ہے۔چند ایک کے سوا آزاد امیدواروں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ ہے۔حلف اٹھانے کے بعد ان ارکان کا اجتماعی فیصلہ مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کی شکل واضح کرے گا جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حما یت یافتہ حکومت تشکیل پانا یقینی ہو چکا ہے۔نگران وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے جمعہ کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات کے موقع پر امن و امان برقرار رکھنے اور انٹرنیٹ و موبائل فون سروس کی بندش کا جواز پیش کیا۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران ساٹھ سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات کو پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد سے روکا گیا۔ان کے مطابق فون اور انٹرنیٹ سروس کھولنے کی صورت میں دہشت گردانہ کارروائی کا اندیشہ تھا اور حکومت نے انسانی جانوں کو بچانے کے لئے یہ سخت فیصلہ کیا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ووٹر اپنا حق رائے دہی بروئے کار لانے کے لئے نکلے،ووٹروں کو غیر متوقع طور پر مواصلاتی بندش کا سامنا کرنا پڑا جو شفافیت اور انصاف پر سوال اٹھاتی ہے ۔ 2024 کے انتخابات اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ لوگ شدید توقعات کے ساتھ پولنگ سٹیشنوں پر آئے۔8 فروری کو لاکھوں پاکستانیوں نے ملک میں سیاسی استحکام ،معاشی بحالی، انتقام کی سیاست دفن کرنے اور قومی ایجنڈے کی تشکیل کی امید میں ووٹ دیا لیکن انتخابی نتائج میں غیر ضروری تاخیرنے فوج، پولیس اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ شام 5 بجے پولنگ بند ہونے کے بعدنتائج کے اعلان میں طویل تاخیر پر الیکشن کمیشن کی خاموشی افواہوں کو جنم دینے کا باعث بنی۔ملک بھر میں 90,000 پولنگ سٹیشنوں پر تقریباً 129 ملین پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے انتظامات کئے گئے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ آزاد امیدوار آگے تھے، جبکہ نواز شریف کی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھیں۔ یہ ابتدائی اشارہ، تقریباً 30% غیر سرکاری نتائج سے اخذ کیا گیا ۔ووٹنگ کا وقت ختم ہوتے ہی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے جمعرات کو کہا کہ عام انتخابات 100 فیصد آزادانہ، منصفانہ اور شفاف تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں کسی بھی پولنگ سٹیشن پر کسی ووٹر کو نہیں روکا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر انتخابات کے نتائج کو قبول کریں گے۔ الیکشن کمیشن کے دفتر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات بڑی حد تک پرامن رہے اور ووٹنگ کا عمل بلا تعطل جاری رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ جہاں کہیں بھی افسران کو رابطے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، پریذائیڈنگ آفیسر ذاتی طور پر ریٹرننگ آفیسر کے دفتر کا دورہ کرکے حتمی نتائج کا فارم45 حوالے کرتا تھا۔اس کے بعد فارم 45 پر موجود نتائج کو الیکشن مینجمنٹ سسٹم (EMS) پر اپ لوڈ کرنے کا بتایا گیا۔ہوا یہ کہ جس نظام کی سوفیصد شفافیت اور فعالیت کا یقین دلایا گیا تھا وہ عین موقع پر دھوکہ دے گیا ۔اب متعدد امیدوار اپنے فارم پنتالیس جمع کئے عدالتوںسے رجوع کر رہے ہیں۔یہ سوال ایک بار پھر ابھرا ہے کہ آخر الیکشن کمیشن اپنا کام ہر بار انجام دینے میں کیوں ناکام رہتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں نے مواصلاتی بلیک آؤٹ پر تنقید کی ہے ۔ "لوگوں کے حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی" قرار دیتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ "معلومات تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنا لاپرواہی ہے کیونکہ لوگ تباہ کن بم دھماکوں کے خطرے کے باوجود پولنگ سٹیشنوں کا رخ کرتے ہیں ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی انٹرنیٹ اور سیلولر سروسز میں خلل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "سروس میں خلل سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کے دن نگران حکومت کو مسلسل انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔" ایکسیس ناؤ اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ "حکومت کے حد سے زیادہ اقدامات پاکستان میں جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، جہاں لاکھوں لوگ اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے ضروری معلومات کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں،" عالمی اور قومی حلقوں کی جانب سے آواز بلند کرنے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے رات دو بجے تک تمام صوبائی الیکشن کمشنرز اور ریٹرننگ افسران کو حالیہ عام انتخابات کے نتائج کا اعلان کرنے کی ہدایت کی لیکن اس پر اگلے دن صبح دس بجے تک عمل نہ ہو سکا۔اس نے انتخابی نتائج کے متعلق مزید شبہات کو تقویت دی۔ الیکشن کمیشن نے بروقت نتائج کے اعلان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی افسر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جو ہدایت کی تعمیل میں ناکام رہے گا۔یہ سخت موقف انتخابی عمل میں شفافیت اور احتساب کو برقرار رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن کے عزم کی عکاسی کرتا ہے لیکن اب سوال پیدا ہوا ہے کہ جن افسران نے بر وقت نتائج نہیں اعلان کئے ان کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی؟ بلکہ خود الیکشن کمیشن کے ذمہ داروں کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کی ایک تاریخ رہی ہے۔آئی جے آئی اور پھر اس کے بعد کئی بار اس کی مختلف صورتیں دیکھی گئیں۔اس بار شفافیت کی زیادہ ضرورت تھی لیکن الیکشن کمیشن کی غفلت نے اسی شفافیت پر ضرب لگائی ہے۔