شنگھائی تعاون تنظیم(SCO)صرف پاک چین دفاعی معاہدہ کا زینہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ چین‘افغانستان اور پاکستان(CAP) کا متحدہ عالمی بلاک کا پیش خیمہ بھی ہے۔مذکورہ تنظیم 14جنوری 2001ء میں بنی۔اس کا ہیڈ کوارٹر بیجنگ ہے۔یہ دنیا کی 40فیصد آبادی اور یوریشیا Euroashiaکے 60فیصد رقبے کے سیاسی‘ اقتصادی اور سلامتی(سکیورٹی) کے لئے باہم تعاون کی داغ بیل ڈالنا ہے۔اس کا مقصود خطے میں امن‘ ترقی اور باہمی اقتصادی اعتماد سازی بھی ہے۔ بعدازاں تنظیم میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہو گئے جبکہ افغانستان اور ایران مبصرین کی صورت میں شریک تھے مگر اب بھارتی میزبانی (4مئی 2023ء گواGoa) کے ذریعے ایران کو بھی رکنیت میسر آ گئی۔افغانستان تاحال صرف مبصر ہے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت کو شنگھائی اقتصادی تنظیم کے بانی چین کے سوا کسی نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جبکہ چین کے لئے افغانستان کی جغرافیائی‘ اقتصادی اور سیاسی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ چینی وزیر خارجہ گوا کانفرنس میں خطاب کر کے فوراً پاکستان آ گئے، جہاں وہ پاک‘ افغان وزرائے خارجہ سے ملاقات کر رہے ہیں۔سعودی عرب کی مکالماتی شراکت نے تنظیم کی اہمیت کو وسعت دی، فی الحقیقت شنگھائی اقتصادی تنظیم یورپی یونین اور نیٹو کے طرز کی ایشیائی تنظیم کی طرز ہے۔یاد رہے کہ بھارت نے G 20کی میزبانی کا اہتمام مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر میں کر رکھا ہے نیز پچھلے سال چین نے بھارت کے ساتھ زمینی تنازعات کے تناظر میں بھارت کو کئی مقامات پر شرمناک فوجی شکست دی تھی، جبکہ چین بھارت جنگ 1962ء بھی بھارت کے لئے فوجی ناکامی کا سبق تھا۔شنگھائی اقتصادی تنظیم کے دو اہم رکن چین اور روس ہیں۔فی الحال چین اور روس عالمی امور میں یکجان ہیں۔مگر تنظیم کے تناظر میں بھارت چین کی نسبت روس کے قریب تر ہے اور یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ بھارت‘ امریکہ‘ اسرائیل اور روس کا خطے میں سٹریٹجک پارٹنراور دفاعی حلیف بھی ہے۔بھارت اسرائیل دوستی کا عالم تو یہ ہے کہ اسرائیل ‘ روس‘ امریکہ و یورپی یونین کی مدد سے بھارت کو خطے کی ہمہ قوت ریاست یعنی خطے کی بالادست قوت بنانے کے لئے کوشاں ہے۔علاوہ ازیں اس وقت بھارتی خارجہ پالیسی اپنی کامیابی کی معراج پر ہے کیونکہ امریکی نائب صدر خاتون کملا ہیرث بھارت نژاد فیملی ہے جبکہ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم سوناک رشی بھی بھارتی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔دریں صورت بھارت عالمی اور علاقائی امور میں اہم کردار کا حامل نظر آتا ہے۔اس حقیقت سے انکار بھی ناممکن ہے کہ افغان روس جنگ(افغان جہاد) کے دوران روس اور بھارت مشترکہ مفادات کے لئے یکجان تھے۔افغانستان کے معاملے میں روس اور بھارت کی پالیسی ایک تھی۔اس کے برعکس افغان جہاد یعنی روس افغان جنگ کے دوران چین پاکستان کے اصولی‘اخلاقی اور انسانی موقف کے ساتھ دامے‘ درمے‘ سخنے شامل تھا۔آج منظر بدل گیا ہے۔آج روس اور چین یوکرائن کے مسئلہ پر مشترکہ پالیسی کے حامل ہیں۔نیز چین اور روس نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر امریکی ڈالر کی عالمی قدر کو خاصا گھٹایا ہے کیونکہ انہوں نے دنیا کو ڈالر کی بجائے مقامی چینی اور روسی کرنسی میں تجارتی ادائیگی کو ترجیح دینے کی پالیسی اپنا لی ہے، جس سے امریکی تجارتی مفادات کو خاصی زک پہنچے گی۔حقیقت یہ ہے کہ چین امریکہ کے مقابل ابھرتی ہوئی سیاسی و اقتصادی عالمی و علاقائی طاقت ہے اور شنگھائی تنظیم ڈوبتی امریکی سیاسی و اقتصادی ساکھ کو نہ صرف مہمیز لگاتی ہے بلکہ ایک ابھرتی ہوئی متبادل عالمی تنظیم کا کردار ادا کرتی محسوس ہوتی ہے۔شنگھائی تنظیم چین کی عالمی ساکھ کی بنیاد ہے۔ مگر اس میں آج بھی کئی رخنے ہیں، جن کو دور کرنے میں وقت لگے گا اور کئی بار تنظیم نو کا امکان بھی عیاں ہے۔ یہ رخنے رکاوٹیں اور روڑے کیا ہیں‘ ان کو تحمل‘ بردباری اور دانشمندی سے دور کئے بغیر شنگھائی تنظیم بھرپور کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔مندرجہ بالا تناظر کی نشاندہی میں یہ کہنا بعیداز قیاس نہیں شنگھائی تنظیم انتظامی اور اہدافی تقسیم کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔شنگھائی تنظیم ایک عالمی و علاقائی راہنما تنظیم ہے مگر یہ خطے کی سیاسی‘ اقتصادی اور سلامتی سے متعلق پیچیدگی کے باعث مشکلات سے دوچار ہو سکتی ہے۔یہ پیچیدگی چین اور بھارت کے اہدافی ترجیحات سے جنم لے گی۔ جو بہت جلد چین اور بھارت کو دوبارہ آمنے سامنے کھڑا کر دے گی۔دراصل مذکورہ پیچیدگی کا اصل سبب پاک بھارت تاریخی یا نظریاتی تنازعات ہیں‘ جن کو جلد بآسانی ختم کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔یہ تنازعات کیا ہیں‘ ان کا تفصیلی ذکر درج ذیل پیراگراف میں کیا جاتا ہے۔ عالمی صہیونی و اسرائیلی مافیا بھارت کو چین کے خلاف علاقائی و عالمی طاقت بنانے کے لئے کوشاں ہیں چین عالمی مافیا کی مرضی کو بخوبی جانتا ہے چین کو معلوم ہے کہ خطے میں پاکستان اور افغانستان مذکورہ عالمی مافیا کے خلاف کامیاب مزاحمتی ریاستیں ہیں، اگر یہ یکسوئی کے ساتھ چین کی مضبوط معاون بن جائیں تو اتحاد ناقابل تسخیر قوت بن سکتا ہے۔چین نے ماضی میں پاکستان کے ساتھ اقتصادی و تجارتی تعاون کو باہم دفاعی کو مقدم رکھا‘اب چین نے پاک چین اور افغان دفاعی معاہدے کو مقدم کر دیا اور اس طرح تجارتی معاہدے کو دفاعی تحفظ فراہم کر دیا۔پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا سات روزہ چینی دورہ اسی امر کی نشاندہی کرتا ہے۔یاد رہے کہ جنرل عاصم منیر جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی طرح ’’امریکی فدائی‘‘ نہیں ہیں۔نیز شنگھائی تنظیم کا گوا کانفرنس مذکورہ چین‘ افغان و پاک کا علاقائی تنظیمی تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔پاکستان بھارت سے مسئلہ کشمیر اور مسلم کش سرکاری پالیسی سے خاصا نالاں ہے جبکہ متنازع مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا غیر آئینی غیر قانونی اور اقوام متحدہ کی کشمیر قرار دادوں کے برعکس بھارت کا زمینی اٹوٹ بنانا اور سری نگر میں G 20کا اجلاس بلانا پاکستان کے لئے سوہان روح ہے۔چین G 20کا بھی اہم حصہ ہے لہٰذا پاک چین اور چین افغان دوستی خطے میں ان اقدامات کو بھی فروغ دے سکتی ہے جو بھارت اور بھارت نواز عالم مافیا پر گراں گزر سکتے ہیں۔دریں تناظر پاک بھارت تنازعات سنگین تر بھی ہو سکتے ہیں۔اگر پاکستان نے اپنی مرضی اور آزادی کی راہ اپنا لی تو پاکستان کی ’’ہاں میں ‘ ہاں‘‘ اور ’’ناں میں ناں‘‘ ہو گی جو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گی کیونکہ دریں صورت چین اور کابل کی موجودہ مزاحمتی جہادی حکومت پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔پاکستان کو علاقائی اور عالمی قوت بننے سے روکنے کے لئے بھارت اور بھارت نواز عالمی مافیا کے پاس مسئلہ کشمیر کو فوری طور پر آزاد ‘ خود مختار اور متحدہ کشمیر کی تحریک کو پروان چڑھانے کے سوا کوئی راہ نہ ہو گی۔یہ راہ پاکستان کی سیاسی‘ اقتصادی‘ تجارتی اور سلامتی کے امور کو مہلک نتائج سے ہمکنار کر دے گی لہٰذا مستقبل پاک چین اور افغان سیاسی و اقتصادی اور سکیورٹی (دفاعی) امور میں شنگھائی تنظیم اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے‘ نیز شنگھائی تنظیم خطے میں شطرنج کے مہروں ازسرنو صف بندی کی نشاندہی کرتی ہے۔یاد رہے پاکستان کراچی تا گوادر سب کی ضرورت ہے بلکہ بھارت کو علاقائی اور عالمی بالادست قوت بنانے میں منفی اور مثبت کلید ہے ۔دریں تناظر پاکستان کو اندرونی و سرحدی تحفظ کے لئے مضبوط اور قابل اعتماد دوست یا دوستوں کی ضرورت ہے جو شنگھائی تنظیم کے ذریعے چین اور کابل فراہم کر سکتا ہے۔