روزانہ درجنوں جبکہ بسا اوقات ایک دن میں لگ بھگ سو افراد رابطہ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ فلاں معاملہ میں فلاں شخص ،ادارہ یا حکمران ظلم کر رہا ہے ،انکا جائز حق نہیں دے رہا یا پھر قبضہ مافیہ کے ساتھ مل کر انکی پراپرٹی ہتھیانا چاہتا ہے۔اللہ عزت دینے والا ہے زیادہ تر معاملات میں ٹیلیفونک کالز یا ٹیکسٹ پر دادرسی ہوجاتی ہے۔جبکہ بہت سارے بظاہر نیک اور پرہیزگار بنے افسران و زاہدان کے مکروہ دھندے سامنے آتے ہیں۔سب سے زیادہ ہٹ دھرمی خود کو سپرئیر سمجھنے والے وفاقی اور صوبائی افسران سے دیکھنے کو ملتی ہے جہاں پر اکثریت نے قسم کھالی ہے کہ رشوت لیے بغیر کسی کا جائز کام نہیں کرنا۔کرپٹ افسران کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ پرلے درجے کے فٹو اور ڈرپوک ہوتے ہیں اس لیے اپنے کالے کرتوتوں کی پردہ پوشی کیلئے صحافیوں کی کال نہیں اٹھائیں گے کہ کسی دونمبری پر مئوقف نہ دینا پڑ جائے۔ اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا اکثر خبروں کے آخر میں لکھا ہوتا ہے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کے باوجود مذکورہ کرپٹ افسر نے اپنا مئوقف نہیں پیش کیا۔اسی سے ملتے جلتے حالات سیاستدانوں کے ہیں جو الیکشن سے قبل صحافیوں کو روحانی باپ کا درجہ دے رہے ہوتے ہیں بلاناغہ و بلاوجہ کالز کررہے ہوتے ہیں، جیسے ہی منسٹری ملتی ہے مڑ کر نہیں دیکھتے بلکہ پرسنل نمبر ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ وہی سیاستدان ہیں جو اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ایک خبر کیلئے پائوں پکڑنے تک جاتے ہیں۔ 3 مئی کو صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔صحافتی تنظیموں نے سیمیناررکھے جبکہ اکثریت نے سوشل میڈیا کی حد تک منایا ۔مقام افسوس ہے ان ہزاروں افسران اور سینکڑوں سیاستدانوں پر جنہوں نے اپنے ہر مشکل وقت میں ہم سے مدد مانگی اور ہم نے ہمیشہ سپورٹ کیا۔عام افراد سے کوئی شکوہ نہیں اور نہ ہی کبھی کسی شکریہ کیلئے کام کروایا۔لیکن روزانہ کی بنیاد پر’’ہیلپ پلیز‘‘کی درخواست اٹھائے سیاستدان خاص طور پر سرکاری ملازمین اپنے چھوٹے سے چھوٹے اور میجر ایشوز میں سوالیہ نظروں سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں ۔صحافی برادری نے ان سوالیوںکو کبھی خالی ہاتھ نہیں لٹایا بلکہ انکی امید اور توقعات سے زیادہ سپورٹ کیا۔3مئی خاموشی سے گزر گیا اور ان میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ جن صحافیوں کی وجہ سے ان کی دکانداری کے جعلی کارنامے شائع ہوتے ہیں انکو شکریہ یا اظہار یکجہتی کا ٹیکسٹ ہی کردیتے۔ سوشل میڈیا کی بدولت ہر دوسرا اور تیسرا شخص صحافی بنا ہوا ہے۔ اس لئے آزادی صحافت سے پہلے یہ بھی سوچنا ہے کہ اصل اور جعلی صحافی کی پہچان کیسے ہو؟ اصلی صحافی پڑھا لکھا ،ایماندار اور باکردار ہوتا ہے اس لیے کسی بھی حکومتی یا انتظامی عہدیدار کو خاطر میں نہیں لاتا اور قلمی فریضہ سرانجام دیتے ہوئے کرپٹ افراد کو بے نقاب کرتا ہے۔جبکہ وارداتیے اور ان پڑھ سوشل میڈیا کے جعلی صحافی اور ڈمی ادارے جن کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے لیکن یہاں گنگا ہمیشہ الٹی بہتی ہے انتظامی افسران ان جعل سازوں کے خلاف کاروائی کی بجائے انکو اپنی قصیدہ خوانی کیلئے پالنا شروع کردیتی ہے کیوں کہ اصل صحافی تو ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ سرکاری افسر خواہ خود کتنا ہی کرپٹ بدعنوان ظالم اور بد کردار ہی کیوں نہ ہو اگر صحافی اس کے بارے میں سچ لکھتا ہے تو وہ صحافی اس کی نظر میں بلیک میلر بن کر سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس لئے حق اور سچ لکھنے والے صحافی کے لئے صحافت قدم قدم پر آزمائش اور شدید خطرات کا باعث بنتی ہے۔ اپنی خبر کی سچائی پر کھڑے رہنا اور ’’سورس‘‘ نہ بتانا، صحافت کے بنیادی اصولوں میں آتا ہے،’’ جرنلسٹس پروٹیکشن بل‘‘ میں صحافیوںکو قانوناً آزادی دی گئی ہے کہ صحافی سے اس کا ’’سورس‘‘ نہیں پوچھا جائے گا۔ خواتین صحافیوں کی بھی لمبی فہرست ہے جنہوں نے آزادی صحافت کیلئے جدوجہد کی،خواتین تو ویسے ہی اس معاشرے میں آسان ہدف رہی ہیں مگر صحافت میں اگر کوئی سچ لکھنے یا بولنے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے اس کی کردارکشی کی جاتی ہے۔ علاقائی صحافی تو ریاستی مشینری کے ساتھ سماجی اور معاشی دبائو کا بھی شکار ہیں۔ علاقائی با اثر سیاسی شخصیات مقامی صحافیوں کو اداروں سے فارغ کروانے اور انہیں منسلک کروانے کی طاقت بھی رکھتی ہیں۔ اگر کوئی صحافی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پولیس کی کرپشن،لاقانونیت اور مجرموں کی پشت پناہی پر قلمی فریضہ ادا کرتا ہے تو پولیس ایسے گستاخ کو سبق سکھانے کیلئے اپنے ٹائوٹوں کے ذریعے بے بنیاددرخواستوں پریک طرفہ ایف آئی آرکا اندراج کرکے صحافیوں کو پریشرائز کرتی ہے تاکہ من پسند اور سب اچھا کی خبریں لگوائی جاسکیں۔ہمارے علاقائی صحافی بھی بھولے بادشاہ ہیں وہ جعلی ایف آئی آر کو خارج کروانے کیلئے’’انصاف دو’’کے نعرے لگاتے ڈی پی او کے دربار میں حاضر ہوجاتے ہیں۔چند حاضریوں اور احتجاج کے بعد ایف آئی آر خارج ہوتی ہے توتمام اخبارات میں انصاف کا بول بالا اور ڈی پی او کی جے جے کار کی خبریں شہ سرخیوں میں ہوتی ہیں۔ بیچارے صحافی اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ جعلی ایف آئی آر کے ذریعے سرکش صحافیوں کو لگام ڈالنے کے ا س طریقہ واردات کا اصل ماسٹر مائنڈ توڈی آئی جی آپریشن اور ڈی پی او خود ہوتا ہے۔ صحافی نہ صرف معاشرے کا چوتھا ستون ہیں بلکہ معاشرے کی آنکھ بھی ہیں۔اسوقت پاکستان میں اگر کوئی سب سے غیر محفوظ ہے تو صحافی ہیں۔لینڈ مافیا ، سیاستدانوں اور انتظامیہ کی طرف سے بے شمار دھمکی آمیز کالز آئے روز کا کام ہے۔کیسا ظلم ہے کہ معاشرہ میں کسی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی آواز بننے والے صحافی کی آواز بننے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا؟