نئی پارلیمنٹ سے نیا صدر منتخب ہونے کے بعد آصف علی زرداری نے اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا ہے۔نومنتخب صدر کو مجموعی طور پر 411 ووٹ ملے جبکہ ان کے مد مقابل محمود اچکزئی کو 181ووٹ ملے۔جماعت اسلامی ،جے یو آئی اور جی ڈی اے نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔سنی اتحاد کونسل کے نامزد اورہارنے والے امیدوار محمود خان اچکزئی نے الیکشن اچھے ماحول میں ہونے اور پہلی بار ووٹوں کی خرید و فروخت نہ ہونے کو اطمینان بخش قرار دیا۔عام انتخابات کے بعد وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا انتخاب مکمل ہونے کے بعد ریاست کا سب سے بڑے آئینی منصب پر بھی جمہوری انداز میں انتخاب کا ہونا ایک مثبت پیشرفت ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اگلے ماہ سینٹ انتخابات اور نئے چئیر مین سینٹ کے انتخاب کے بعد جمہوری نظام کے تمام پرزے ہموار طور پر کام کرنے لگیں گے۔پاکستان برسوں سے لاینحل سیاسی تنازعات کا شکار آ رہا ہے۔سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ سیاستدانوں کو کسی قومی ایجنڈے پر اتفاق نہ ہونا ہے۔سیاسی اختلافات ایک جمہوری معاشرے کا عام جزو ہوتے ہیں لیکن پاکستان کا سارا جمہوری و سیاسی ڈھانچہ کبھی آئی جے آئی ،کبھی پی ڈی ایم اور کبھی پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کے ہاتھوں منہدم ہو جاتا ہے۔اس دوران معاشی بحالی، روزگار کی فراہمی، سماجی ترقی ، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کا کوئی منصوبہ محض اس وجہ سے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتا کہ نئی حکومت پہلے والی حکومت سے الگ ترجیحات رکھتی ہے۔سب سے بڑا مسئلہ سیاسی اشتعال اور الزام تراشی کی فضا میں کمی کا ہے جس کی توقع پارٹیوں کے سینئر رہنماوں سے کی جاتی ہے۔ایسی صورتحال میں ایک ایسے سیاستدان کا صدر منتخب ہونا حوصلہ افزا امر ہے جسے اکثر سیاسی حلقوں میں مفاہمت کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ آصف علی زرداری کی زندگی سیاسی امتحانات سے عبارت رہی ہے۔صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو دو برسوں کے اندر ہی برطرف کر دیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک میں نواز شریف کی حکومت آنے کے کچھ ہی عرصے بعد 10 اکتوبر 1990 کو آصف زرداری پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے اور جب نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو فروری 1993 میں انھیں رہائی ملی۔آصف زرداری پر مالی بدعنوانی، اغوا، اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے، جو کبھی عدالتوں میں ثابت نہیں ہو پائے۔نوے کی دہائی کا یہی وہ دور تھا جب ان کے خلاف کرپشن کے الزامات پر مبنی مہم چلائی گئی۔ یہ وہ الزامات تھے جو کبھی عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے۔سن1993 میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بنیں تاہم یہ حکومت بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996 میں اسے برطرف کر دیا گیا۔بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں آصف علی زرداری پر ایک بار پھر الزامات عائد کیے گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹوکی دوسری حکومت کی برطرفی سے قبل آصف علی زرداری دبئی میں تھے اور دبئی سے پاکستان واپسی پر اگلے ہی روز انھیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا گیا۔ طویل اسیری کی وجہ سے وہ جیل میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والے پاکستانی سیاست دان بن گئے۔ اْن کی غیر موجودگی میں بچوں کی پرورش کی مکمل ذمہ داری بینظیر بھٹو کے پاس رہی۔اسیری کے دوران ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بڑے ہوتے ہوئے دیکھنے کی خوشی سے محروم ہیں۔ آصف علی زرداری 2008 سے 2013 تک پاکستان کے صدر رہے ہیں۔ چوہدری فضل الٰہی کے بعد وہ دوسرے سویلین صدر تھے جنھوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔سابق دور صدارت میں ان کے قابل ذکر فیصلوں میں اسمبلی کی معطلی کے اختیارات پارلیمان کو واپس کرنا، 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری بحال کرنا، فاٹا اصلاحات، آغاز حقوق بلوچستان اور نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے فارمولے کی از سر نو تشکیل، گلگت بلتستان کی خودمختاری اور صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینا شامل ہیں۔جنرل پرویز مشرف کی پاکستان پر 8 سالہ حکمرانی کے بعد آصف زرداری نے جب سویلین صدر کا منصب سنبھالا تو انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں توازن لانے کی کوشش کی۔ عموماً دوبارہ اقتدار میں واپسی کٹھن ہو جاتی ہے تاہم آصف علی زرداری دوسری بار صدر کے منصب پر فائز ہو ئے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر طرح کے ھالات میں مفاہمت کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد سیاسی امن قائم ہونے کی آرزو پوری نہیں ہو سکی، انتخابی دھاندلی کے الزامات کا الیکشن کمیشن خاطر خوا جواب نہیں دے پایا۔مخصوص نشستوں کا معاملہ متنازع بنایا جا رہا ہے،پارلیمنٹ کا کردار مجہول دکھائی دے رہا ہے۔یہ ایک مشکل منظر نامہ ہے جہاں حکومت اور اس کے اتحادیوں کو ایک جارح اپوزیشن کا سامنا ہے لیکن سیاسی مفاہمت اور تجربہ کاری کا پہلا امتحان یہی ہے کہ اپوزیشن سنی اتحاد کونسل، جے یو آئی اور جی ڈی اے کے ساتھ مذاکرات کی کھڑکیاں نو منتخب صدر مملکت اور پارلیمنٹ کھولے ۔سیاسی جھگڑوں کا حل نکالا جا سکتا ہے،اپوزیشن اور حکومت دونوں کو ضد کی بجائے ملکی استحکام کو ترجیح دنیا ہوگی۔آصف علی زرداری صدر مملکت منتخب ہونے کے بعد ان توقعات کا محور بن گئے ہیں کہ وہ وفاق کی علامت کے طور پر اشتعال انگیز ماحول میں مفید کردار ادا کریں گے۔