امجد نے درد کا سفر اس لئے لکھی کہ اس جیسے معذور اس کی زندگی کو مثال بنا کر جینے کی ہمت پکڑیں۔ مسائل سے لڑنا اور جینا سیکھیں۔ امجد کے عزم حوصلہ استقامت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے امریکہ میں ’’ون ان ملین‘‘ کا خطاب دیا گیا تو سعودی عرب میں ہیرو کے اعزاز سے نوازا گیا۔ دنیا بھر میں اس کا مثال بننا اعزاز ہے۔ ہمارے اور یورپ کے معاشروں میں انسانی رویوں میں اتنا فرق کیوں ہے اس کی ایک وجہ تو امجد فاروقی نے اپنی کتاب میں بتائی دی ہے کہ کس طرح چین میں صرف ایک ٹیچر کے حکم پر نہ صرف ٹرین بغیر سٹاف کے روکی جاتی ہے اور قانون کے خلاف مال بردار ٹرین میں معذور کو سوار کیا جاتا ہے ۔ دوسری طرف سرگودھا اور جھنگ کے ریلوے اسٹیشن پر ایک معذور کے ساتھ مسافر ہی غیر انسانی سلوک نہیں کرتے بلکہ ٹکٹ چیکر بزنس کلاس ٹکٹ ہونے کے باوجود ویل چیئر کا ٹکٹ نہ خریدنے پر ویل چیئر سمیت معذور کو ٹرین سے باہر پھیکنے کی دھمکی دیتا ہے۔ چین میں ایک پروفیسر کو اس قدر تعظیم دیجاتی ہے کہ اس کے حکم پر چین میں ہی نہیں ہانگ کانگ میں بھی معذور کے لئے خصوصی امیگریشن کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ایک گھنٹے تک فلائٹ کو صرف اس لئے روکے رکھا جاتا ہے کہ ایک استاد حکم دیتا ہے کہ ایک معذور کے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے جہاز اڑان نہ بھرے ۔دوسری طرف ملکی ایئر لائن معذور فرد کو تمام مطلوبہ تقاضے پورے کرنے کے بعد بھی جہاز میں سوار کرنے سے انکار دیتی ہے۔ جب اجازت بھی ملتی ہے تو اس کو بے جان سمجھ کر سامان کی طرح جہاز کی سیٹ پر پھیک دیا جاتا ہے۔ایک طرف یورپ میں انجان معذور کے حق لئے دنیا کے بہترین ڈاکٹر سعودی عرب بلا ئے جاتے ہیں تو دوسری طرف وطن عزیز میں حقارت کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ چھوٹا بھائی چاردہائیوں سے یورپ میں ہے ۔رزق کی تلاش اسے ملکوں ملکوں خوار کرتے سویڈن لے گئی۔ سویڈن میں یورپ کے انٹرنیشل لائسنس پر گاڑیاں چلانے کی اجازت ہے مگر اس لائسنس پر سویڈن میں پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کی نوکری نہیںدیجاتی۔ بھائی نے بہتر مسقتبل کے لئے سویڈن میں بس کے ڈرائیونگ لائسنس کے لئے اپلائی کیا۔ پہلے کلاسز ہوئیں پھر عملی تربیت کا مرحلہ شروع ہو ا۔ پہلے دن تما م امیدواروں کو ایک مقام پر جمع کیا گیا اور دو دو کے گروپس میں تقسیم کر دیا ۔ آنکھوں پر اس طرح پٹی باندھی گئی کے نظر آنا ممکن نہ تھا پھر ہاتھ میں سفید چھڑی تھما کر بس سٹاپ تک جانے کا کہا گیا جو قریب دو کلو میٹر دور تھا۔ وہاں پہنچے تو بس میں سوار ہونے کا بتایا گیا۔ آنکھوں پر پٹی تھی بھائی سوار ہونے لگا تو ڈرائیور نے بس کو ہلکی سی حرکت دی بھائی بس کی سیڑھیوں سے پھسلا تو سٹاف کے دو آدمیوں نے سہارہ تو دیا مگر پھر پیچھے ہٹ گئے۔ بس میں خود سوار ہونے کے بعد بھی پٹی نہیں اتاری گئی دوگھنٹے گھوم کر بس ایک مقام پر رکی تو آنکھوں سے پٹی اتاری گئی تو پتہ چلا یہ تو وہی مقام ہے جہاں سے آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی۔ وہاں بتایا گیا کہ آپ کی بس میں معذور بھی سوار ہوں گے یہ مشق محض اس لئے تھی کہ آپ کو اس بات کا احساس اور تجربہ ہو کہ ایک معذور کی زندگی میں کیا کیا مسائل ہوتے ہیں ۔ بھائی بتاتا ہے آج بھی جب کسی معذور کو سڑک پر دیکھتا ہوں تو مجھے اس دن میری ٹانگ میں لگی چوٹ میں عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ معاشرے ڈگریوں اور دولت سے نہیں بلکہ اخلاقی تربیت سے بنتے ہیں۔ ’’درد کا سفر‘‘ پڑنے کے بعد پاکستان اور مہذب دنیا میں معذورں کے ساتھ رواہ رکھے جانے والے سلوک کے فرق کا پتہ چلتا ہے ۔ یوم معذوراں پر پنجاب کے وزیر صحت نے امجد صدیقی کے ساتھ کیک کاٹا۔ حکومت اگر اپنے اس سپوت کو کسی اعزاز کے قابل نہیں سمجھتی تو نہ سمجھے مگر جس وزیر صحت نے ان کے ساتھ کیک کاٹنا ہے وہ اس کی کہانی کو ہی پڑھ لیں اور لندن اور پاکستان کے ڈاکٹروں کے مریضوں کے ساتھ رویہ میں فرق پر غورکرلیں تو یہ بھی ایوارڈ ہی ہو گا ۔ وزیر موصوف پاکستان میں ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کو ڈیوٹی جائن کرنے سے پہلے ایک دن کے لئے معذوروں بن کر تربیت حاصل کرنا لازمی قرار نہیں دے سکتے تو کم از کم میڈیکل پروفیشن کے کورسز میں امجد صدیقی کی کتاب پر مشتمل میڈیکل ایتھکس کے مضمون کو ہی لازمی قرار دے دیں یہ بھی امجد صدیقی کے لئے حکومت کی طرف سے اعزاز اور ایوراڈ سے کم نہ ہوگا ۔ شاید ایسا کرنے سے ہی پاکستان میں معذوروں کے ساتھ انسان دوست رویے کو فروغ مل سکے۔ ہمارے دین کی بنیاد ہی نظام اخلاق پر کھڑی ہے ۔ دین کی نظر میں اچھا وہی ہے جس کا اخلاق اچھا ہے ، جو اپنے خالق کی مخلوق خصوصاََ معذور اور ضرورت مندوں کا خیال رکھتا ہے۔ خود حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ آپ کی سیرت اخالق کا بہترین نمونہ ہے لیکن آج کا مسلمان دین کے اس بنیادی مطالبے سے کوسوں دور ہے جس نے جانوروں سے بھی بہترین سلوک روا رکھنے کی تلقین کی ہے۔ مغرب نے اس نظام اخلاق کو اپنایا ، نتیجتاََ وہاں معذوروں کے ادارے بھی وجود میں آ گئے۔ امجد صدیقی کی کہانی اسی نظام اخلاق کی باز گشت ہے ، جس کو بار بار پڑھنے اور اس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا خالق کا ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں ۔ امجدصدیقی درد کے اس سفر میں ہمیں ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں ، آئیے ان کے ہم قدم بن کر معذوروںکو وہی عزت و احترام کریں اور ان کو وہی حقوق دیںجو بطور انسان ان کا حق ہے۔