محمد حامد سراج میانوالی سے تعلق رکھنے والے باکمال افسانہ نگار تھے۔ آج بھی ان کا تعارف ماں پر لکھی ہوئی ان کی ایک شاہکار ۔تحریر ہے۔ اپنی ماں کی شدید بیماری لمحہ لمحہ رخصتی اور پھر وفات کو انہوں نے خود کلامی کے سے انداز میں ایک طویل افسانے کا روپ دیا۔میں پڑھتے ہوئے آنکھیں باربار آنسوؤں سے دھندلا جاتی ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی والدہ ماجدہ کی وفات پر اپنے انداز میں ایک نظم کہی جس میں ماں کی جدائی کو کھو جانے والی فردوس سے تعبیر کیا۔حکیم الامت امت نے اعتراف کیا کہ بڑے سے بڑا آدمی بھی اپنی ماں کے سامنے بچہ ہے۔ زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم اقبال اپنے اسی خاص حکیمانہ انداز میں زندگی اور موت کے فلسفے کو بیان کرتے ہیں جو ان کی شاعری کا اصل رنگ تھا۔ یہ نظم غمنزدہ دل پر کسی مرہم کی طرح ہے اثر کرتی ہے۔ اس طویل نظم کا آخری شعر مقبول عام ہے : آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے قدرت اللہ شہاب نے اپنی والدہ کی وفات پر کیا دلپذیر افسانہ ماں جی لکھ کر اردوادب کو ثروت مند کیا۔ماں کی محبت اور اس سے عارضی جدائی کے حوالے۔ سے دنیا کی ہر زبان میں اظہار ہوا شاعروں اور ادیبوں نے محبت اور تعلق کے اس آفاقی رنگ کو اپنی نظموں ناولوں اور کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ دوستو وسکی کا ضخیم ناول۔ماں فکشن کی دنیا کا ایک لازوال شاہکار ہے۔ عباس تابش کا یہ شعر ماں کے حوالے سے بہت مقبول ہے: ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے اور مرحوم اسلم کولسری کا یہ دلگداذ شعر : شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا منور رانا بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔انہیں اللہ نے توفیق دی کہ انہوں نے ماں کی محبت کے مختلف رنگوں کو دلپذیر سادہ انداز میں اپنی شعروں میں سمویا ہے، سچے اور سیدھے اشعار دل میں ترازو ہوجاتے ہیں : کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی ایک شعر دیکھئے : کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاؤں ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں ایک اور شعر دیکھیے جب بھی کشتی میری سیلاب میں آ جاتی ہے ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے ساجد جاوید ساجد کا یہ مقبول شعر ایک الگ ہی کیفت رکھتا ہے: گھر کی اس بار مکمل میں تلاشی لوں گا غم چھپا کر مرے ماں باپ کہاں رکھتے ہیں کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں ٹفن رکھتی ہے مری ماں تو بستہ مسکراتا ہے ماں کی محبت ایک آفاقی موضوع ہے محبت کے سب چشمے اسی محبت سے پھوٹتے ہیں کائنات پر محیط جو۔ازلی ہجر ہے وہ بھی اس وقت سمجھ میں آتا ہے جب عارضی دنیا میں آپ کو ماں کی جدائی سہنی پڑتی ہے ،ماں کے جانے کے بعد سے یہی لگتا ہے کہ زندگی کا ہر منظر ہے اس کے عدم موجودگی کے احساس سے بھر جاتا ہے یوں وہ نظر نہ آکر بھی ہر وقت نظر میں رہتی ہے۔ دسمبر کا آغاز ہوتا ہے تو وہ قیامت خیز دن یاد آتا جب بے لوث محبت کا ایک چمکتا ہوا آفتاب ڈوب گیا تھا۔کچھ اشعار جو اس آفاقی محبت اور جدائی سے میرے قلم سے نکلے : وہ ماں کی گود کی گرمی یہ برف زار حیات کہاں کہاں سے مجھے زندگی گزارتی ہے کسی بھی خواب کا سامان جب بکھرتا ہے تو تیرے لمس کی شدت مجھے دلارتی ہے گھر سے پڑھنے کے لیے ہوسٹل جانے لگی تو امی سے دور رہنے کا احساس ایک مختصر نظم میں ڈھل گیا کاغذ پر اتارا اور باورچی خانے میں سنک پر برتن دھوتی ماں کو جاکے سنایا: صبح کا در کھلتا ہے/ سورج روز نکلتا ہے/ لیکن میری آنکھوں کا/ چھٹتا نہیں اندھیراماں/ ہوتا نہیں سویراماں/ بن دیکھے چہرہ تیراماں کیا خبر تھی کہ دائمی جدائی بھی گھات میں ہے ۔ یخ بستہ دسمبر تھا اور ماں سے جدائی کے اولین تھے۔ امی کو یاد کرتے اور روتے سہہ پہر میں آنکھ لگی اور سوگئی خواب میں امی کو دیکھا ، خواب میں ان کی موجودگی کا احساس اتنا گہرا تھا کہ شدت سے جی چاہا خود کو اسی خواب میں ہی رہنے دوں بڑی بہن شام کی چائے کے لیے آواز دے رہی تھی تو حقیقت کی دنیا میں آنکھ کھلی ۔ یوں یہ نظم ہوئی: میں تیرے خواب کے طلسم میں ہوں/اور یہ چاہوں کہ ابھی/ میرے احساس کے دروازے پر/کوئی دستک ہو نہ زنجیر ہلے/ابھی مجھ کو کوئی آواز نہ دے/ابھی کانوں میں تری باتوں کی انمول صدا ہے/ابھی آنکھوں نے تجھے پھر سے تازہ دم دیکھا ہے/ابھی ہاتھوں نے تجھے پھر سے محسوس کیا ہے/ابھی خواب میں پچھلا موسم پھر سے جاگ رہا ہے/ابھی میں تیرے ہمراہ ہوں اور میرا چہرہ/ترے ہونے کے احساس سے کیسے دمک رہا ہے/کچھ دیر ابھی احساس کی یہ قندیل جلائے رہنے دو!/ کچھ دیر مجھے ان پلکوں پر یہ خواب اٹھائے رہنے دو!/ کچھ دیر مجھے آواز نہ دو!/ کچھ دیر مجھے آواز نہ دو! آخر میں منور رانا کے اس سچے شعر پر ہی کالم ختم کرتی ہو میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا۔۔!!