2001ء میں غامدی صاحب نے فرمایا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں تھا۔ ارتقا کے منازل طے کرنے کے بعد 2019ء میں غامدی صاحب نے اسے ظلم و عدوان کے خلاف جہاد کی مثال قرار دیا! مزید دو سال بعد امریکا کو بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا، تو آپ اسے سپرپاور کا ایڈونچر کہنے لگے! سردست ہم یہ نہیں پوچھیں گے کہ کیا اسلامی شریعت کی رو سے جہاد ایک عبادت ہے یا نہیں؟ ہم اس وقت اس موضوع کے مذہبی، عقائدی، اصولی یا فکری مباحث میں بھی جانا نہیں چاہتے؛ بلکہ صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ غامدی صاحب بین الاقوامی قانون کے متعلق بنیادی باتوں سے بھی قطعی طور پر لاعلم ہیں اور محض اپنی سادہ لوحی کی بنا پر ایسے مفروضات قائم کیے ہوئے ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلے بین الاقوامی قانون میں جنگ کے جواز کے متعلق بنیادی باتیں نوٹ کرلیں۔ اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2 (4 )نے طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی پر پابندی عائد کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین اور ریاستوں میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ جامع پابندی ہے اب صرف ان صورتوں میں جنگ کی اجازت ہے جن کی صریح اجازت منشور نے بابِ ہفتم میں دی ہے؛ دوسری رائے یہ ہے کہ منشور سے قبل بین الاقوامی عرف میں جن متعدد صورتوں میں جنگ کی اجازت تھی، وہ اب بھی باقی ہے۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ منشور کے بعد کے مختلف عوامل (سرد جنگ، سلامتی کونسل کی ناکامی وغیرہ) کی وجہ سے نیا عرف ایسا بنا کہ ریاستوں نے کئی صورتوں میں جنگ کو جائز ماننا شروع کردیا ہے۔ اس متنازعہ مسئلے کو چھوڑ کر اس بات پر آئیے کہ اقوامِ متحدہ کے منشور نے صراحتاً دو صورتوں میں طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کی صراحتاً اجازت دی ہے : ایک، کسی ریاست کے خلاف "مسلح حملہ"ہو، تو اسے دفاع میں طاقت کے استعمال کا حق حاصل ہے(دفعہ 51)؛ اور دوسری ، کسی ریاست نے دوسری ریاست کے خلاف جارحیت کے عمل کا ارتکاب کیا ، یا امن کی خلاف ورزی کی ، یا اس سے امن کو خطرہ ہو (دفعہ 39) ، تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اس ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال کرسکتی ہے تاکہ (پہلی دو صورتوں میں ) بین الاقوامی امن واپس بحال کیا جائے یا (تیسری صورت میں) بین الاقوامی امن کو برقرار رکھا جاسکے (دیکھیے دفعہ 42)۔سلامتی کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانا تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے(دفعہ 25 و دفعہ 43)۔جن صورتوں میں جنگ کی اجازت کا صراحتاً منشور میں ذکر نہیں ہے، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ پھر غامدی صاحب کیسے اتنا بڑا دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے منشور کے تحت جنگ کی ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے؟ دوسرا سوال اس سے زیادہ اہم ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے جنگ کو غامدی صاحب ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کیسے قرار دیتے ہیں؟ کیا خود سلامتی کونسل نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کررہی ہے؟ یہ تاویل پیش کرنے سے قبل کہ بین الاقوامی امن کی بحالی یا اسے برقرار رکھنے کی جنگ کو ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے، نوٹ کیجیے کہ سلامتی کونسل ایک سیاسی ادارہ ہے اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ سلامتی کونسل قانون اور حق و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلیے نہیں سیاسی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے اور اسی وجہ سے سلامتی کونسل کے فیصلوں کو بین الاقوامی قانون کے مآخذ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان کو یہ حق کیوں دیا گیا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی "نہ" کہہ دے تو سلامتی کونسل کوئی کارروائی نہیں کرسکے گی (جسے عرفِ عام میں "ویٹو" کہا جاتا ہے)؟ بین الاقوامی قانون کی نصابی کتب میں اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ چونکہ "مجلسِ اقوام" کے میثاق 1919ء میں بڑی طاقتوں کیلیے ایسا کوئی اختیار نہیں مانا گیا تھا، اس لیے بڑی طاقتوں کی مرضی کے خلاف فیصلوں کا امکان تھا۔ پھر جب بعض ایسے فیصلے سامنے بھی آئے تو بڑی طاقتوں نے مجلسِ اقوام سے باہر ہی اپنے فیصلے کرنے شروع کیے ، بلکہ مجلسِ اقوام کے فیصلوں کے خلاف فیصلے کرنے لگے اور یوں نہ صرف مجلسِ اقوام عضو معطل کی حیثیت اختیار کرگئی بلکہ بین الاقوامی امن بھی برقرار نہیں رہ سکا اور جلد ہی دوسری بڑی جنگ شروع ہوگئی۔ اس تجربے کی بنیاد پر دوسری بڑی جنگ جیتنے والی طاقتوں نے ضروری سمجھا کہ جنگ کے بعد نئے عالمی نظام کی تشکیل کرتے ہوئے اس طرح کی بڑی جنگ سے بچنے کیلیے نئی تنظیم میں ان بڑی طاقتوں کو "نہ" کہنے کا حق دیا جائے اور ان میں ایک بھی اگر "نہ" کہہ دے تو وہ تنظیم پھر اس معاملے میں آگے نہ بڑھ سکے۔ اس سارے فلسفے کا خلاصہ ایک جملے میں یہ ہے کہ سلامتی کونسل کا یہ اختیار امن یقینی بنانے کے لیے ہے، نہ کہ عدل قائم کرنے کیلیے! (اگرچہ ظلم کے ساتھ امن کے قیام کی توقع رکھنا محض دیوانگی ہے۔) چنانچہ اگر کہیں ظلم کے پہاڑ بھی توڑے جارہے ہوں اور انسانیت تباہی کے دہانے پر بھی پہنچ گئی ہو، تب بھی سلامتی کونسل اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کرسکتی جب تک ان پانچ طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کیلیے وہاں کارروائی ضروری نہ ہوگئی ہو۔ اس کی مثالیں دیکھنی ہوں تو صرف فلسطین و کشمیر ہی کی طرف نہ دیکھیے، روانڈا میں دیکھ لیجیے کہ کیسے نوے کی دہائی کی ابتدا میں دو قبائل کی جنگ میں تقریباً دس لاکھ انسان مارے گئے اور تقریباً پانچ لاکھ عورتوں کی عصمت پامال کی گئی لیکن سلامتی کونسل تب تک کارراوئی نہیں کرسکتی جب تک بڑی طاقتوں کو وہاں سے لوٹ کے مال میں وافر حصے کا یقین نہیں دلایا جاسکا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے القاعدہ یا طالبان کے متعلق جو بھی قرارداد منظور کی ہے، کسی ایک قرارداد میں بھی اس نے امریکا کو افغانستان پر حملے کی اجازت نہیں دی، نہ ہی امریکا نے افغانستان پر حملے کیلیے سلامتی کونسل سے اجازت طلب کی کیونکہ وہ حقِ دفاع کا دعوی کررہا تھا اور حقِ دفاع میں جنگ کیلیے سلامتی کونسل کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (کیا نائن الیون کے بعد حقِ دفاع کے تحت امریکا کو افغانستان پر حملے کی اجازت تھی یا نہیں ؟ یہ ایک الگ مستقل موضوع ہے اور اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔) غامدی صاحب نے افغانستان پر جن انیس ممالک کے حملے کو ظلم و عدوان کے خلاف جہاد سے تعبیر کیا تھا، وہ معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے ارکان تھے اور خود نیٹو نے اس حملے کو"اجتماعی حقِ دفاع" کی شکل کہا تھا، نہ کہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ، یعنی جو دعویٰ کرنے کی توفیق خود حملہ آوروں کو نہیں ہوسکی، وہ دعویٰ ان کی جانب سے غامدی صاحب کربیٹھے ہیں!