فیصل عجمی ۷ اپریل ۱۹۵۴ء کو ملتان میں پیدا ہوئے‘انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن کی اور ایک طویل عرصے سے ذاتی کاروبار کے سلسلے میں تھائی لینڈ میں مقیم ہیں۔فیصل عجمی نظم و غزل کے بہترین شاعر اور اردو کے اہم ترین جریدے ’’آثار‘‘کے مدیر اعلیٰ ہیں۔آپ کی تصانیف میں ’’شام‘‘، ’’مراسم‘‘، ’’خواب‘‘، ’’سمندر‘‘ ’’سونامی‘‘ اور ’’درویش‘‘شامل ہی۔حال ہی میں آپ کا شعری کلیات بھی ’’سخن آباد‘‘کے نام سے آثار اکادمی سے شائع ہوا۔۱۹۹۸ء میں فیصل عجمی نے ایک بین الاقوامی معیار کے ادبی جریدے ’’آثار‘‘کا اجراء کیا تھا جس کی مدیر شاعرہ ایڈیٹر اور مترجم ثمینہ راجہ کو مقرر کیا گیا تھا۔فیصل عجمی اور ثمینہ راجہ کے اشتراک نے آثار کو اردو کا صف اول کا ادبی جریدہ بنادیا تھا جس میں نظم و نثر کا بہترین اور معیاری انتخاب شائع ہوتا تھا۔اردو کے صف اول کے قلم کار اس جریدے میں شائع ہوتے تھے اور ایک زمانے تک ’’آثار‘‘کی دھوم مچی رہی۔فیصل عجمی نے پرچے کو جاری رکھنے کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان بھی کیا تھایعنی ہر سال کسی ایک ادبی شخصیت کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا جائے گا‘یہ ایوارڈ کسی بھی تخلیق کار کو اس کی ساری زندگی کے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کیا جاتا تھا۔پہلا آثار ایوارڈ منفرد شاعر ثروت حسین کے نام سے معتبر ہوا تھا‘اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کل بروز اتوار(۷ مئی ۲۰۲۳ئ) کو ایک اور اہم ادبی شخصیت کو آثار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ(مع پانچ لاکھ نقدی)کو نوازا گیا‘اس شخصیت کا نام ظفر اقبال ہے۔ظفر صاحب عصرِ حاضرکے سب سے اہم شاعر اور کالم نگار ہیں‘انھیں ۲۰۲۳ء کا آثار ایوارڈ ان کی عمر بھر کی ادبی خدمات کے صلے میں پیش کیا گیا‘یہ یقینا اثار ایوارڈ کی خوش بختی ہے کہ وہ ثروت حسین کے بعد ظفر اقبال کے نام سے معتبر ہوا۔ آثار کے پہلے دور میں کل دس شمارے ہی شائع ہو سکے تھے جن میں ایک خاص نمبر اور شمارہ سالگرہ نمبر کے طور پر شائع کیا گیا تھا۔ثمینہ راجہ کی اکتوبر ۲۰۱۲ء میں ناگہانی موت کے بعد یہ شمارہ بند ہو گیا۔خوشی کی خبر یہ ہے کہ دو دہائی کے طویل وقفے کے بعد یہ شمارہ دوبارہ چھپنا شروع ہو چکا ہے اور اب اس کی ادارت کے فرائض ڈاکٹر کبیر اطہر اور برادر شاہد ماکلی سرانجام دے رہے ہیں۔فیصل عجمی نے آثار کے اداریے میں لکھا’’میں نے ایک معجزے کو قریب سے دیکھاجب امانت لوٹانے کے جنون میں مکھی کو مرنے نہیں دیا،بیس برس ہو گئے،مجھے بھی ایک امانت واپس کرنی تھی۔۔۔کر رہا ہوں‘‘۔برادر شاہد ماکلی نے جب آثار کا تازہ شمارہ ارسال کیا تو دل خوشی سے بھر گیا‘ایک ہی نشست میں کئی مضامین پڑھ ڈالے۔ابھی آثار سے مستفید اور لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ایک روز ’’سخن آباد‘‘کی شکل میں ایک اورنایاب تحفہ موصول ہوا ‘اسے بھی شاہد ماکلی نے بھجوایا تھا،’’آثار ‘‘پڑھنے کے بعد کئی روز سے ’’سخن آباد‘‘(کلیات فیصل عجمی)کے مطالعے میں مصروف ہوں۔ گزشتہ روز لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں منعقد ہ ’’آثار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ کی تقریب میں موجود مقررین اور ناقدین نے فیصل عجمی کے شعری جہان،آثار کے ادبی کمالات اور ظفر اقبال کی علمی و ادبی خدمات پر سیر حاصل روشنی ڈالی‘یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ابھی ایسے ادارے،لو گ اور تنظیمیں موجود ہیں جو علمی و ادبی خدمت عبادت سمجھ کر رہی ہیں۔ہمارے ہاں چاپلوسی اور منافقت کرنے والوں کوآنکھوں پر بٹھایا جاتا رہا اور جینوئن قلم کار اور دانشور ہمیشہ بے جا تنقید کی زد میں رہے‘جو ہاتھ پائوں مار کے بھی کچھ نہ کر سکا ‘اس نے دوسروں پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔اب تو حکومتی سطح پر ملنے والے ایوارڈز اور تمغے بھی متنازعہ ہو چکے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انتہائی غیر سنجیدہ لوگوں اور من پسند صحافیوں و ادیبوں کو سرکاری اعزازات سے دیے جاتے رہے‘وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری اعزازوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے ‘کیا اچھا ہوتا اگر یہ اعزازات تعلق اور رابطوں کی بجائے عمر بھر کے کام کی بنیاد پر دیے جاتے۔ میں ایسی علمی و ادبی تنظیموں اور جریدوں کا تہہ دل سے احترام کرتا ہوں جنھوں نے ذاتی نمود و نمائش کے بغیر خالص علمی و ادبی لوگوں کو عزت دی‘ان کے اعزاز میں شامیں منائیں اور ان کے نام ایوارڈ زکیے،یہی اصل عبادت ہے کہ جس کا جو حق ہے اسے اس سے نوازا جائے۔ظفر اقبال ہوں یا فیصل عجمی ،ان دنوں شخصیات نے بے تحاشا علمی کام کیا‘نظم و نثر میں نت نئے تجربات کیے اور اپنے قاری کو ہمیشہ نئی طرز سے متعارف کروایا۔ظفر اقبال کا بطور کالم نگار بھی ایک حوالہ موجود ہے مگر وہ اس درجہ مضبوط نہیں۔بطور شاعرو نقاد انھوں نے جو گراں قدر کام کیا‘اس کا ہم سب اعتراف کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے،آثار اکادمی کا لائف ٹائم اچیومنٹ کے لیے ظفر اقبال کا انتخاب انتہائی احسن فیصلہ ہے۔اب آخر میں ظفر اقبال اور فیصل عجمی کی ایک ایک غزل ملاحظہ فرمائیں۔ ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو؍مجھے پاگل کیا اس نے تماشا دیکھنے کو۔وہ صورت دیکھ لی ہم نے تو پھر کچھ بھی نہ دیکھا؍ابھی ورنہ پڑی تھی ایک دنیا دیکھنے کو۔تمنا کی کسے پرواکہ سونے جاگنے میں؍میسر ہیں بہت خواب تمنا دیکھنے کو۔بہ ظاہر مطمئن میں بھی رہااس انجمن میں؍سبھی موجود تھے اور وہ بھی خوش تھا دیکھنے کو۔ اب اس کو دیکھ کر دل ہو گیا ہے اور بوجھل؍ترستا تھا یہی دیکھو تو کتنا دیکھنے کو۔اب اتنا حسن آنکھوں میں سمائے بھی تو کیوں کر؍وگرنہ آج اسے ہم نے بھی دیکھا دیکھنے کو۔چھپایا ہاتھ سے چہرہ بھی اس نامہرباں نے؍ہم آئے تھے ظفرؔ جس کا سراپا دیکھنے کو۔فیصل عجمی کی غزل دیکھیں۔اب آنگن سے برف ہٹانی پڑتی ہے؍دھوپ اٹھا کر گھر لے جانی پڑتی ہے۔جانے والو!گھر والوں سے کہہ دینا؍آنسو پی کر پیاس بجھانی پڑتی ہے۔شام کی لالی اور سَحر کی سرخی میں؍جلتی بجھتی رات ملانی پڑتی ہے۔سن لیتی ہیں کان لگا کر سرگوشی؍دیواروں سے بات چھپانی پڑتی ہے۔مٹی سے بھی باتیں کی جا سکتی ہیں؍پہلے ساری عمر گنوانی پڑتی ہے۔