9اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کی جاچکی ہے۔آئین کی دفعہ 224 (2) کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں انتخابات کا انعقاد 90 دن کے اندر کرانا لازم ہے۔الیکشن کمیشن نے انتخابات سے قبل تازہ مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کیلیے تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے؟ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 میں کہا گیا تھا کہ صدرِ مملکت الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ مقرر کرے گا۔ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے اس سال جون میں اس دفعہ میں جو ترمیم کی گئی اس کے ذریعے اس میں سے صدر کا نام ہی خارج کردیا گیا اور یہ قرار دیا کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ تاہم آئینی اور قانونی اصولوں کی روشنی میں اس معاملے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں یہ اختیار اب بھی صدر ہی کے پاس ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کی حیثیت "ماتحت قانون" کی ہے اور اسے آئین پر حاوی نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس ایکٹ کی ترمیم شدہ دفعہ 57 میں اس کی تصریح بھی کی گئی ہے کہ یہ دفعہ "آئین کے تابع" ہے، حالانکہ اس تصریح کے بغیر بھی یہ قانونی اصول طے شدہ اور مسلمہ تھا۔ آئین کی دفعہ 48 (5) میں تصریح کی گئی ہے کہ جب صدر اسمبلی تحلیل کرے تو اس کے بعد وہ 90 دن کے اندر انتخابات کی تاریخ دے گا۔ 1973ء سے 2010ء تک آئین کی اس دفعہ میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس لیے ان تبدیلیوں پر بھی ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ 1973ء کے اصل آئین میں صدر کو تمام امور میں وزیرِ اعظم کے مشورے کا پابند بنایا گیا تھا اور دفعہ 48 میں یہاں تک قرار دیا گیا تھا کہ صدر کا جاری کیا گیا کوئی حکم اس وقت تک کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا جب تک اس پر وزیر اعظم بھی دستخط نہ کرے۔ جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں آئین کو معطل کیا اور 8 سال بعد مارچ 1985ء میں آئین کی بحالی کے حکم نامے کے ذریعے کئی ترامیم آئین میں داخل کیں جن کے بعد صدر کی حیثیت محض نمائشی نہیں رہی، بلکہ کئی امور میں اسے بہت اہم اختیارات حاصل ہوگئے۔ مثلاً آئین کی اصل دفعہ 58 میں اسمبلی کی تحلیل کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ وزیرِ اعظم صدر کو اس کا مشورہ دے۔ تاہم جنرل ضیاء الحق نے آئین کی بحالی کے حکم نامے کے ذریعے دفعہ 58 میں ذیلی دفعہ 2 کا اضافہ کرکے صدر کو اختیار دے دیا کہ جب وہ رائے دہندگان کی طرف رجوع ضروری سمجھے تو وہ اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے۔ اسی سال نومبر 1985ء میں 8ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دفعہ 58 (2) میں مزید ترمیم کرکے صدر کو اپنی مرضی سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دو صورتوں میں دیا گیا: ایک یہ کہ جب وزیرِ اعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے اور صدر یہ سمجھتا ہو کہ اسمبلی میں کسی اور کے پاس اکثریت نہیں ہے؛ اور دوسری یہ کہ صدر یہ سمجھتا ہو کہ ملک کا نظام آئین کے مطابق نہیں چلایا جارہا اور رائے دہندگان کی طرف رجوع ضروری ہوگیا ہے۔ اس آخری صورت ، یعنی دفعہ 58 (2) (بی)، کو اپریل 1997ء میں 13 ویں ترمیم کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ تاہم اگست 2002ء میں جنرل مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے پھر صدر کو یہ اختیار دے دیا۔ اپریل 2010ء میں 18ویں ترمیم کے ذریعے پھر اس دفعہ کو ختم کردیا گیا۔ چنانچہ اب صدر اسمبلی کو صرف دو صورتوں میں ختم کرسکتا ہے: ایک جب وزیرِ اعظم اس کا مشورہ دے؛ اور دوسری جب وزیرِ اعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد صدر یہ سمجھتا ہو کہ اسمبلی میں کسی اور کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ مارچ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے آئین کی بحالی کے حکم نامے کے ذریعے دفعہ 48 میں بھی ایسی تبدیلیاں کیں جن کے بعد بعض صورتوں میں صدر وزیرِ اعظم کے مشورے کا پابند نہیں رہا۔ چنانچہ نو اضافہ شدہ دفعہ 48 (5) میں قرار دیا گیا کہ جب صدر اسمبلی تحلیل کرے، تو اس کے بعد نئے انتخابات کیلیے تاریخ بھی صدر ہی مقرر کرے گا اور یہ تاریخ اسمبلی کی تحلیل کے 100 دن کے اندر ہوگی۔ ساتھ ہی صدر کو "نگران کابینہ" کی تقرری کا اختیار بھی دیا گیا۔ دفعہ 48 (5) اس صورت میں اپریل 2010ء تک باقی رہی جب 18ویں ترمیم نے انتخابات کیلیے 100 دن کی مدت کم کرکے 90 دن کردی۔ پھر فروری 2012ء میں 20ویں ترمیم کے ذریعے اس دفعہ میں یہ بات شامل کی گئی کہ نگران کابینہ کی تقرری کیلیے صدر دفعہ 224 یا 224-اے کا پابند ہوگا۔ فروری 2012ء کے بعد سے اب تک دفعہ 48 (5) اسی صورت میں نافذ ہے۔چونکہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشورے پر صدر عارف علوی نے 9 اگست کو اسمبلی تحلیل کی، اس لیے موجودہ نگران وزیر اعظم اور نگران کابینہ کا تقرر بھی اسی دفعہ میں مذکور طریقِ کار کے مطابق صدر عارف علوی نے کیا۔ اسی طرح انتخابات کی تاریخ کا تعین بھی اس دفعہ کے تحت صدر عارف علوی ہی کے پاس ہے۔ دفعہ 48 (5) کا یہ متن چونکہ 18ویں اور 20ویں ترامیم کے ذریعے آیا ہے، اس لیے اسے "ڈکٹیٹر کا دیا گیا قانون" بھی نہیں کہاجاسکتا۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کی یہ تعبیر کہ اب ہر صورت میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، اسے آئین کی دفعہ 48 (5) سے متصادم بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ایکٹ کی دفعہ 57 کی ایسی تعبیر کرنی لازم ہے جو اسے آئین سے ہم آہنگ کردے، اور اگر ایسی کوئی تعبیر ممکن نہ ہو، تو پھر اسے تصادم کی حد تک کالعدم تصور کیا جائے گا۔ آئین سے ہم آہنگ تعبیر صرف یہی ہوسکتی ہے کہ جب اسمبلی اپنی مدت پوری کرے، تو اس صورت میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس ہے، جبکہ اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں یہ اختیار آئین کی دفعہ 48 (5) کے تحت صدر کے پاس ہے۔ اگر اسمبلی مدت پوری کرتی تو یہ اختیار صدر کے ہاتھ سے نکل جاتا، لیکن اس صورت میں آئین کی دفعہ 224 (1) کے تحت انتخابات 60 دن کے اندر کرنے پڑتے۔ اس لیے پی ڈی ایم نے اپنے تئیں چالاکی کرتے ہوئے مدت پوری ہونے سے 4 دن قبل اسمبلی تحلیل کروائی یہ سوچے بغیر کہ اس طرح تو انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار صدر ہی کے پاس چلا جائے گا اور صدر پر اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت بھی لازم نہیں رہے گی کیونکہ ترمیم کے بعد الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 میں اب یہ شرط موجود ہی نہیں! 90 دنوںکی آئینی مدت میں سے14 دن گزر چکے۔ صدر کب انتخابات کیلیے تاریخ دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں گے؟