علی عباس جلال پوری۔ممتاز فلسفی اور دانشور تھے عام فکری مغالطے ان کی دل چسپ اور اہم کتاب ہے۔ اس کے پیش لفظ میں علی عباس جلالپوری لکھتے ہیں کہ: ان عقائد کو جو ہمیں ورثے میں ملتے ہیں جنہیں ہم اپنے تہذیبی ماحول سے اخذ کرتے ہیں بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انسان فطری لحاظ سے سہل پسند ہوا ہے اور غورو فکر سے جی چراتا ہے دوسری بات یہ کہ جامد رسوم فکر ہمارے مزاج عقلی میں اس حد تک نفوذ کر جاتی ہیں کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل اذیت ناک ہوتا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا ذہن ایسے دھندلا جاتا ہے جسے ایک مدت سے صاف نہ کیا گیا ہو۔ کتاب میں چودہ عام مغالطوں کو زیر بحث لایا گیا ۔ان میں سے چند یہ ہیں: تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے دولت مسرت کا باعث ہے عشق مرض ہے ، عورت مرد سے کمتر ہیں، انسان کی فطرت خود غرض ہے۔ بے راہروی کا نام آزادی ہے۔ ماضی کتنا اچھا تھا۔ وجدان کو عقل پر برتری حاصل ہے۔ تصوف مذہب کا جزو ہے۔ فطرت خود غرض ہے، ریاست اور مذہب لازم و ملزوم ہیں۔ کالم کا برتن اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ اس میں کتاب میں موجود سب نظریات کو خلاصہ کی صورت میں بیان کیا جا سکے۔ ہاں اس دیگ سے تھوڑا تھوڑا ضرور چکھا جا سکتا ہے۔ پہلا مغالطہ جس پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ ہے، تاریخ آپ کو دہراتی ہے۔ یہ ایک عام سا تسلیم شدہ خیال ہے جو اکثر وبیشتر ہمارے مکالمے اور تحریر کا حصہ بنتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے علی عباس جلالپوری دلیل دیتے ہیں کہ تاریخی عمل ایک دائرے میں چکر نہیں لگا رہا بلکہ خط مستقیم پر گامزن ہے۔ جیسے پہلے دور وحشت تھا جس میں آگ دریافت کی گئی، پھر زرعی معاشرہ وجود میں آیا جو دس ہزار برس تک رہا ،پھر انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب نے اس کی جگہ لے لی۔ تہذیبیں مٹتی رہیں، تمدن دم توڑتے رہے، انسانی ارتقا کاسفر خط مستقیم پر جاری وساری ہے۔ماضی کیسا اچھا زمانہ تھا، اس حوالے سے جلالپوری کہتے ہیں کہ گڈ اولڈ ڈیز کا تصور مغالطے پر مبنی ہے۔ جلالپوری تاریخ سے بہت سے حوالے لے کر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ صنعتی انقلاب سے پہلے استبداد اور ظلم کا دور دورہ تھا۔انسانی حقوق کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ طاقتور کو تمام حقوق حاصل تھے۔ وہ کمزور کو کچل کر رکھ دیتا ۔ اس زمانے میں مجرموں کووحشیانہ سزائیں دی جاتیں۔ ان کو شکنجے میں کس کر ان کی ہڈیاں چورا چورا کی جاتیں ۔گوشت ہڈیوں سے جدا کیا جاتا ، آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی جاتیں۔ جسم کے نازک حصوں کو آتش سے داغا جاتا ہے ،زندہ انسانوں کی کھال کھینچ لی جاتی ہے۔ بادشاہ اور امراء لوگوں کی خوبصورت لڑکیوں کو جبر کے ساتھ اپنے حرم میں داخل کر لیتے تھے ۔صنعتی انقلاب کے بعد بربریت اور ملوکیت کا خاتمہ ہو گیا ۔ہزاروں برس کی ملوکیت کے بعد عوام نے اطمینان کا سانس لیا ۔چاروں طرف حقوق انسانی کی پاسبانی اور تحفظ کا چرچا ہونے لگا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں سائنس کی محیرالعقول ترقی نے انسان کے سوچنے اور سمجھنے کے انداز بدل دیئے ہیں ۔جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے جو ان گنت صدیوں سے دماغوں پر چھائے ہوئے تھے دیکھتے ہی دیکھتے چھٹ چکے ہیں۔اب وحشیانہ سزاؤں کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔عدالت کے دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہیں۔ صدیوں سے ایک اور فکری مغالطہ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو چکا ہے کہ عورت مرد سے کمتر ہے۔اس فکری مغالطے کے حوالے سے جلالپوری بہت عمدہ دلائل ہمارے سامنے لے کر آتے ہیں۔لکھتے ہیں کہ زرعی معاشرے میں عورت کو شخصی املاک بنا کر رکھ دیا گیا ۔اس کی آزاد سوچ اور حریت فکر کو کچل دیا گیا۔ مرد نے اسے اپنی ہوس کا کھلونا بنا لیا اور ان حالات میں اس پر دس ہزار برس گزر گئے اور عورت اپنے اصل مقام سے بے خبر ہو گئی اس کے ذہن و فکر کی صلاحیتیں فنا ہوگئیں۔ان حالات میں اگر کسی عورت سے لغزش ہو جاتی تھی تو اسے فریبی اور بے وفا کہا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی لوک کہانیوں، قدیم تمثیلوں میں عورت کو فریبی اور دغا باز کہا گیا۔ بڑے بڑے عظیم فلسفیوں نے عورت کو بدترین اور گھٹیا علامتوں سے تشبیہ دی۔صنعتی انقلاب میں جب انسانی حقوق کا پرچار ہوا تو عورتوں کو بھی اپنے حقوق ملنے لگے۔ عورتوں پر تعلیم کے دروازے کھلے تو ان کی سوچ کو روشنی ملی۔ ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آنے لگیں۔ عورت نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی صورت مرد سے کمتر نہیں۔ قدرت نے عورت کو حسن و جمال رعنائی و دلکشی کی دولت سے بھی مالا مال کیا ہے۔ اپنے حسن و جمال اور جذب و کشش کا شعور عورت میں بے پناہ طاقت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کے کمتر اور کہتر ہونے کی تمام سوچیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ اور باشعور عورت عمل کے ہر میدان میں مرد کے دوش بدوش کام کرنے لگی ہے ۔روس کی خلا باز عورت نے مرد کی جسمانی برتری کا بلبلہ بھی پھوڑ دیاہے۔عباس جلال پوری لکھتے ہیں کہ میں نے عام فکری مغالطے لکھ کر سوچ کے ٹھہرے پانی میں چند کنکر پھینکے ہیں اس امید کے ساتھ کہ سطح آب پر اٹھتی ہوئی چند ننھی منی لہریں کناروں تک پھیل جائیں گی ۔ کتاب پڑھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ علی عباس جلال پوری کی ایک ایک موضوع پر تحقیق کئی کتابوں کا نچوڑ ہے۔ یاد رہے کہ یہ اس دور کی بات ہے جب ہماری طرح کچی پکی معلومات انٹرنیٹ پر میسر نہ تھیں۔ایک ایک خیال کی جانچ کے لیے انہوں نے کتابیں پڑھیں اور اس کے اصل ماخذ سے استفادہ کیا۔ اور خود کو اس درجہ مستند اور قابل بنایا کہ ول ڈیورانٹ کی کتاب آئی تو بلا جھجک اس میں سے تاریخی حوالوں کی کچھ اغلاط کی نشاندہی کردی جسے ممتاز فلسفی ول ڈیورانٹ نے کھلے دل سے تسلیم کیا اور اگلی اشاعت میں انہیں درست کرکے شائع کیا۔