عامر لیاقت کے انتقال کی خبر نے دل دکھی کر دیا ۔ شہرت کی بلندیوں کی چھونے کے بعد عمر کے آخری حصے میں جس ذہنی کرب، تکلیف اور ڈپریشن میں وہ مبتلا رہے ، اسے سوچ کر دل اور بھی دکھی ہے۔ زندگی کا آخری سال عامر لیاقت کے لیے بہت مشکل تھا۔بات کرتے تھے تو اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک خاص ذہنی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اللہ پاک ان کی اگلی منزلیں آسان کرے ، ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کی لغزشوں کو درگزر فرمائے۔ عامر لیاقت سے میری پہلی ملاقات 2012 میں ہوئی تھی۔ اس وقت رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے ان کا طوطی بولتا تھا۔ جس چینل سے وہ رمضان کا معاہدہ کر لیتے اس چینل کے لیے سال کی سب سے بڑی خبر یہی ہوتی۔ میں اس زمانے میںمیں بطور نیوزاینکر کام کیا کرتا تھا۔ تبھی یہ دھماکے دار خبر موصول ہوئی کہ اس ادارے کے انٹرٹینمنٹ چینل کا معاہدہ عامر لیاقت سے طے پا گیا ہے اور یہ کہ اس بار کی رمضان ٹرانسمیشن وہ ہمارے ساتھ کریں گے۔ چند دن میں رمضان شروع ہوا تو انہوں نے چند نیوز اینکرز کو بطور مہمان کراچی مدعو کیا۔ رات کی فلائیٹ تھی ،میںنے دیگر تین اینکرز کے ہمراہ ریجنٹ پلازہ میں چیک ان کیاتو رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔ تھوڑا فریش ہونے کے بعد ہم سحری کی غرض سے نیچے آ گئے جہاںسوئمنگ پول کے پاس بوفے سحری کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تبھی سحری ٹرانسمیشن کا آغاز ہو چکا تھا جس کا سیٹ ریجنٹ پلازہ ہی کے ایک بڑے ہال میں لگا تھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کو ہماری آمد کی اطلاع ملی تو وہ بریک کے دوران سیٹ چھوڑ کے ہم سے ملنے آ گئے۔تبھی ایک خوشگوار، ہنستے مسکراتے اور شرارتیں کرتے عامر لیاقت سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ ہمیں اگلی دوپہر ان کے پروگرام میں شرکت کرنی تھی مگر سحری ہی میں ہمیں وہاں لے جا کر خوش آمدید کہنے کی دعوت دے رہے تھے۔ اس وقت تو ہم نے معذرت کر لی لیکن اگلے روز چند گھنٹے کی ٹرانسمیشن میں انہوں نے بہت عزت سے نوازا، ہر تھوڑی دیر بعد ہمارے پاس آتے اور پوچھتے کوئی مسئلہ تو نہیںہے۔ ہمارے ساتھ ایسے پیش آئے جیسے ہم ان کے لیے بہت اسپیشل ہوںاورجیسے اس سے پہلے وہ اتنے خاص مہمانوں سے کبھی نہ ملے ہوں ۔ لیکن میرا خیال ہے ان کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ سب سے ایسے ہی ملتے ہوں گے اور ہر ایک کو یہی احساس دلاتے ہوں گے جیسے وہ ان کے لیے خاص ہو۔ پھر رفتہ رفتہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر ڈاکٹر عامر لیاقت تنقید کی زد میں آنے لگے۔ اپنے شعبے میں ان کے عروج کے دن رخصت ہونے لگے ، دیکھتے ہی دیکھتے ان کی مانگ میں کمی ہو گئی۔ سیاسی فیصلوں میں عدم استحکام نے انہیں مزید تنقید کی لپیٹ میں لے لیا۔ دوسری شادی کے بعد بظاہر تو وہ خوش دکھائی دیتے تھے یا دکھائی دینے کی کوشش کرتے تھے مگر اس بات کا انہیں بہت دکھ تھا کہ ان کی پہلی اولاد نے انہیں فراموش کر دیا۔ ان کی تیسری اہلیہ نے ان پر نشہ کرنے جیسے الزامات عائد کیے تو وہ مزید ڈپریشن میں چلے گئے ۔ پھر جس انداز میں ان کی زندگی کا اختتام ہوا اس پر ہر شخص کا دل بہت دکھی ہے۔ میں بھی بہت عجیب ہوں ، اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ڈاکٹر عامر لیاقت کی شخصیت کا پہلاتاثر مجھ پر اتنا بھرپور پڑا کہ اس پہلی ملاقات کا عکس ہمیشہ میرے ذہن پر موجود رہا۔ آنے والے سالوں میں لوگوں نے ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کیں لیکن میرے ذہن میں وہی پہلی ملاقات والے عامر لیاقت موجود رہے جس کی وجہ سے میں ان کی شخصیت کے منفی پہلو کے بارے میں کبھی نہ سوچ سکا۔ اللہ ان کے اگلی منزلیں آسان فرمائے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ملک مقصود احمد عرف مقصود چپڑاسی کی موت کا بھی بہت دکھ ہے۔ایک شخص 2004 میں محض 7123 روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹی بوائے بھرتی ہوا۔ شریف خاندان کے کاروبار کے لیے اس کے نام پر ایک کمپنی بنائی گئی ، مختلف بینکوں میںاس کے نام پر آٹھ سے زائد اکائونٹس کھولے گئے جس میں مجموعی طور پر 3771 ملین کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ان پڑھ شخص ہونے کے باعث شائد اسے معلوم نہ تھا کہ اس کے نام پر کیا کچھ ہو رہا ہے۔وہ چپ چاپ چند ہزار روپے کی تنخواہ وصول کرتا اور کرائے کے گھر میں رہ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا۔ جب گذشتہ روز وہ دبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوا تو بھی اس کا خاندان لاہور میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہے ۔ ملک مقصود اس دکھ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا کہ وہ چار سال سے اپنے بچوں ،بہن بھائیوں اور رشتے داروں سے ملنے کی تڑپ کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا۔ چند مہینے پہلے اس کے بھائی کا سڑک حادثے میں انتقال ہو گیا ،ویڈیو کال پر ملک مقصود دھاڑیں مار مار کر روتا رہا لیکن بھائی کے جنازے میں شرکت نہ کر سکا۔ کچھ عرصہ پہلے جب اس کے بچوں کے رشتے طے پا رہے تھے، وہ واپس آنا چاہتا تھا، نہ آ سکا، وہ اپنی بیٹی کی منگنی میں شرکت کرنا چاہتا تھا، مگر خواہش دل میں لیے دبئی کے ایک اپارٹمنٹ میں تکیے میں منہ دبا کر سسکیاں لیتا رہا۔ وہ سوچتا تھا کہ جلد ان کیسز سے جان چھڑا کر واپس آئے گا ،جن کی اسے پوری طرح سمجھ بھی نہیں ہے ۔ چند ہفتے پہلے اس کے دل میں امید کی کرن جاگی تھی کہ اب شہباز شریف کی حکومت آنے کے بعد اس کے اچھے دن لوٹ آئیں گے اور جلد وہ اپنے خاندان کے پاس واپس آئے گا۔ لیکن دل میں بچوں سے ملنے کی خواہش لیے دل کے دورے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملااور ایک چھوٹا سا عام آدمی سفاک دنیا کے بے رحمی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اللہ ملک مقصود کی اگلی منزلیں آسان کرے ۔آمین