تہوارکسی بھی معاشرے کے اجتماعی وجود کو وہ توانائی، مواقع اور فوائد فراہم کرتے ہیں جو کسی بھی اور ذریعہ سے شاید ممکن نہ ہو۔یہ تہوار مذہبی ہو ں، قومی ہو ںجیسے جشنِ آزادی ، یا مقامی وثقافتی ، سب ہی معاشرے کو جذباتی قوت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمی کے فروغ کا سبب بھی ہوتے ہیں ۔ لوگ لباس، خوراک، تحائف اور دیگر جشن کی اشیاء پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ مہمان نوازی اور تفریح کے عوامل کوفروغ ملتاہے، صنعتیں صارفین کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی پیداوار میں اضافہ کرتی ہیںجس کے نتیجے میں عارضی اور بعض اوقات مستقل ملازمت کے مواقع پیدا ہوتے ہیںاور ان تمام عوامل سے یقینی طور پرمعاشرے کی افرادی قوت کوبراہِ راست فائدہ ہوتا ہے۔ تہوار ،پاکستان کے بھرپور ثقافتی ورثے اور روایات کو ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کاریگروںاور مقامی آبادیوں کو اپنی روایتی مصنوعات اور دستکاریوں کی نمائش اور فروخت کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی مہیاکرتے ہیںجس سے نا صرف معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملتاہے بلکہ یہ تہوار ملک کے ثقافتی ورثے ، روایتی مہارتوں اور علم کو محفوظ رکھنے میں مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔عید الاضحی بھی ایک ایسا ہی مذہبی تہوار ہے جو پاکستان میںاپنے تمام تر سماجی اور اخلاقی پہلووں کے ساتھ ساتھ بے شمار معاشی سرگرمیوں کا باعث بھی ہوتا ہے اس کی انفرادیت یہ ہے کہ دیگر تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قربانی کی وجہ سے اس تہوار کی معاشی سرگرمیاں دیگرتمام تہواروں سے زائد ہوتی ہیں۔صرف قربانی سے جڑی ہوئی معاشی سرگرمیوں کا تخمینہ ہی 500 ارب کے لگ بھگ ہے۔ اس عید سے قبل راقم نے گذشتہ عید پر ہونیوالی معاشی سرگرمیوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا تھا اور اس برس کی معاشی سرگرمیوں کے بارے میں پیش گوئی بھی کی تھی ۔ جس میں ہم نے اس با ت کا امکا ن ظاہر کیا تھا کہ امسال شدید مہنگائی کے باعث قربانی کے جانوروں کی تعداد میں شاید اس لئے بھی کمی نہ ہو کہ اس برس حج کی سعادت حاصل کرنے والے زائرین کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے اور یہ سرمایہ قربانی کی طرف منتقل ہو سکتا ہے ۔یہ امکان حقیت میں منتقل ہوا اور پاکستان میں تاریخ کی شدید ترین مہنگائی کے باوجود قربان کئے جانوالے جانوروں کی تعداد میںایک تو کمی نہ ہوئی دوسرے ہم نے ایک بار پھرکرونا والے برسوں کی طرح قربان کئے جانے والے جانوروں کی تعداد میں اضافے کا مشاہدہ کیا ،پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن نے انکشاف کیا ہے کہ اس برس عید الاضحی کے دوران ابتدائی اندازوں کے مطابق تقریباً 73 لاکھ60ہزار جانور قربان کیے گئے ہیں جو کہ گذشتہ برس قربان کئے جانیوالے جانوروں سے چوبیس فیصد زائد ہیں۔ پاکستان میں سالانہ تقریباََ آٹھ کروڑ جانور قربان کئے جاتے ہیں چنانچہ سالانہ اعداد و شمار کے تناظر میں عید الاضحی پر قربان کئے جانیوالے جانوروں کا تناسب قریب قریب 9.3 فیصد ہے ۔ اس برس گائے کی قربانی کے اعدادوشمار میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آرہی ،سو اس سال بھی گذشتہ سال کی طرح اندازہ ہے کہ بیس لاکھ گائے ہی قربان کی گئی ہیں مگر گذشتہ چند برسوں سے رواج پاتی ہو ئی اونٹ کی قربانی میںلگ بھگ چالیس فیصد واضح کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے ۔ گذشتہ برس قربان کئے جانیوالے اونٹوں کی تعداد ایک لاکھ تھی جبکہ امسال یہ تعداد صرف ساٹھ ہزار تک محدود ہو گئی ہے ۔ اس بر س قربانی کے جانوروں کی فروخت سے پیداہونیوالی براہِ راست معاشی سرگرمی کا تخمینہ 427 ارب روپے ہے۔رواں برس بکرے اوربھیڑ کی قربانی میںواضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گذشتہ برس تیس لاکھ بکرے اور آٹھ لاکھ بھیڑیں قربان ہوئی تھیں جبکہ اس سال پینتیس لاکھ بکرے اور اٹھارہ لاکھ بھیڑیں قربان ہوئی ہیں ۔ بکرے کی اوسط قیمت چالیس ہزار جبکہ بھیڑ کی قیمت تیس ہزار رہی جس سے بالترتیب 152 ارب اور63ارب روپے کا کاروبار ہوا۔ گائے کی اوسط قیمت ایک لاکھ جبکہ اونٹ کی اوسط قیمت دولاکھ روپے رہی جس سے بالترتیب 200 ارب اور 12ارب روپے کا کاروبار ہواہے۔ گائے کی کھال کی اوسط قیمت 2000روپے رہی جس سے براہ راست 1.6ارب روپے کی معاشی سرگرمی پیدا ہوئی۔جبکہ بکرے، بھیڑ اور اونٹ کی کھال کی اوسط قیمت بالترتیب 275روپے، 50 روپے اور250روپے رہی ۔چنانچہ جانوروں کی کھالوں سے مجموعی طور پر2.8 ارب روپے کی معاشی سرگرمی پیداہوئی۔ کھالوں کی نگہداشت اور محفوظ کرنے کے جدید طریقوں سے ہم آہنگی کی اہمیت عیدکے موقع پر خصوصی اہمیت اختیار کرجاتی ہے کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر جانوروں کی کھالوں کو محفوظ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کی طرف توجہ کی شدید کمی ہے جس کے نتیجے میں اور گرمی اور لوڈشیڈنگ کے اضافی عوامل کیوجہ سے ہر سال کی طرح اس سال بھی جانوروں کی کھالوں کے اچھی خاصی تعداد میں ضیاع کا امکان ہے۔ جانوروں کی کھالوں کے ساتھ ساتھ ان کی انٹریاں بھی بیشتر صنعتوں کو خام مال فراہم کرتی ہیں چنانچہ اس تہوار کے موقع پر انتڑیوں کا بھی باقاعدہ کاروبار ہوتا ہے جس سے قریب قریب ڈیڑھ بلین روپے کا سرمایہ حرکت میں آتاہے۔ اگر اس سب میں جانوروں کی نقل و حمل ، خوراک ، ذبح اور دیگر عوامل کو شامل کر لیا جائے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ فقط قربانی اور اس سے جڑے دیگر عوامل ہی معاشرے میں پانچ سو ارب سے زیادہ کی معاشی سرگرمی پیدا کرتے ہیں ۔ چنانچہ یہ دعویٰ پورے وثوق سے کیا جا سکتا ہے کہ عید قربان کسی بھی تہوارسے زیادہ پاکستانی معیشت کو تقویت فراہم کرتی ہے۔