سرائیکی زبان کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا 127واں سالانہ عرس مبارک سے کوٹ مٹھن شریف میں دھوم دھام سے جاری ہے ۔ عرس مبارک کی تقریبات تین دن جاری ہیں ‘ اندرون و بیرون ممالک سے لاکھوں عقیدت مند تقریبات میں شریک ہیں ۔ عرس کی تقریب کے دوران زائرین سہولتوں کی کمی کا شکوہ کر رہے ہیں ۔ تحریک فرید کے بانی چیئرمین خواجہ غلام فرید کوریجہ کی طرف سے عرس پر احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے، وزیر اعلیٰ کو شکایات کانوٹس لینا چاہئے۔ حضرت خواجہ غلام فرید کور سرائیکی زبان کا بے بدل شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان کی شاعری آج بھی وسیب کے دلوں پر راج کر رہی ہے اور جو بھی خواجہ فرید کی کافی سنتا ہے تو اسے اپنی اور آج کی بات لگتی ہے ‘ یقینا خواجہ فرید صدیوں کا شاعر ہے ‘ خواجہ فرید کا زمانہ انگریز راج کا زمانہ ہے ‘ خواجہ فرید کی پوری زندگی میں کسی انگریز عہدیدار سے ملاقات کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں جو پیغام دیا وہ پیغام ’’ اپنی نگری آپ وسا توں ، پٹ انگریزی تھانے ‘‘ کا پیغام تھا۔ خواجہ فرید کسی کی مثال نہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ خواجہ فرید ایک ذات نہیں بلکہ ایک زمانے کا نام ہے ۔آج میرا موضوع تقابلی جائزہ نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ خواجہ فرید کا سرائیکی وسیب کے مرکز ملتان سے کیا تعلق ہے ؟ خوشی کی بات ہے کہ خواجہ فرید نے ملتان کے ساتھ ساتھ ملتان کی ایک خاتون سے محبت کی اور یہ محبت ازدواجی رشتہ میں تبدیل ہوئی۔ اگر وہ عشق اور محبت کرنے والے انسان نہ ہوتے تو آج سرائیکی کو اتنی توانا شاعری نصیب نہ ہوتی ۔ میں خود سب سے بڑا عقیدت مند ہوں میری دوسرے عقیدت مندوں سے درخواست ہے کہ وہ خداراخواجہ فرید کو فرشتہ نہ بنائیں بلکہ ان کو انسان رہنے دیں اور انسان کی شان فرشتہ سے بڑھ کر ہے ۔ اب میں اپنے موضوع سے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سر زمین ملتان سے خواجہ غلام فرید ؒکا گہرا رشتہ ہے۔ ان کے بزرگ خواجہ محمد زکریا سندھ سے نقل مکانی کر کے ملتان کے نواح میں واقع بستی منگلوٹ (تحصیل لودھراں) میں آئے اور یہاں ایک عظیم الشان دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی شاہجہاں بادشاہ ہند نے مخدوم نورمحمد کو پانچ ہزار بیگھہ اراضی پر مشتمل 140چاہات نذر کیے تھے جس کی آمدنی سے مدرسے کا خرچ چلایا جاتا تھا۔ تین پشت کے بعد خواجہ غلام فرید کے بزرگان میں سے مخدوم محمد شریف نقل مکانی کر کے سیت پور یاریوالی میں آباد ہو گئے اور بعد ازاں یہ خاندان کوٹ مٹھن میں آباد ہوا۔ تاہم کوریجہ خاندان کے افراد اب بھی منگلوٹ میں آباد ہیں جہاں کوریجہ بزرگان کے مزارات بھی ہیں۔ اب کچھ بات دیوان فرید کی ہو جائے ۔ پہلے وقتوں میں خواجہ غلام فرید سئیں کا کلام دوسرے شہروں سے طبع ہوا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کلام چاہے امر تسر آگرہ یا لاہور سے شائع ہوا۔ اس کے سرورق پر ملتانی کافیاں لکھا گیا یہ بھی ملتان سے ایک ایسی نسبت ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ دیرہ غازیخان کے پہاڑی علاقے سے اعلیٰ قسم کی مٹی نکلتی ہے اسے ملتانی مٹی کا نام دیا جاتا ہے اور یہ مٹی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ بعد میں دیوان فرید ملتان سے شائع ہونا شروع ہوئے ان پر بھی ملتانی کافیاں ہی لکھا جاتا رہا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملتان ایک بہت بڑی شناخت اور بہت بڑا حوالہ ہے۔ ہمارے جھوک اخبار کے ساتھی (مرحوم) ملک منیر احمد بھٹہ (1939-2014) کی کتاب’’تہذیب و ثقافت کے آئینہ‘‘ کے پیش لفظ میں، میں نے لکھا تھا کہ :۔ تاریخی اعتبار سے ملتان کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ اس میں پاکستان ہندوستان تو کیا پورا جہاں سما سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں یہ بندی کہاوت زبان زد عام ہے کہ ’’آگرہ اگر، دلی مگر ملتان سب کا پدر‘‘ اسی طرح سرائیکی کہاوت کہ’’ جئیں نہ ڈٹھا ملتان او نہ ہندو نہ مسلمان‘‘ ہندوستان کے سرائیکیوں میں بھی مشہور ہے۔ ملتان سے بہت سے سرائیکی شاعر ، ادیب اور دانشور ہجرت کر گئے ، وہاں بہت سے لوگوں نے اپنے دیوناگری رسم الخط میں خواجہ فرید سئیں کی کافیاں لکھی ہوئی تھیں جو کہ عالمی سرائیکی کانفرنس کے موقع پر انہو ںنے ہمیں دیکھائیں۔تاریخ کے اوراق دیکھنے سے خواجہ فرید کے ہمعصر ملتانی شعراء سینکڑوں کی تعداد میں بر آمد ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ڈٖتن ملتانی، مستن ملتانی، منشی تیغ علی کمتر، میاں محمد مٹھا وغیرہ مگر اس بارے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ساہیوال جس کا پرانا نام منٹگمری ہے، ملتان کا حصہ ہے۔ دیوان مفتون سنگھ کے واقعے کو بھی ملتان کا واقعہ سمجھیں ۔ مفتون سنگھ لکھتے ہیں ’’میں ساہیوال (منٹگمری)جیل میں تھا اور وہاں میں نے ملتان کی ایک گائیک بدرو کی ایک ریکارڈڈ کافی سنی تو کافی کی اثر پذیری اور مٹھاس سے دنگ رہ گیا‘ پھر وہ (دیوان سنگھ) نواب صاحب کو دیوان فرید کو ترجمہ اور تشریح کے ساتھ چھپوانے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘‘ یہ حوالہ جب اپنے دیباچے میں شامل کیا تو مجھے ساری کہانی سمجھ آئی کہ بدرو ملتانی کی آواز میں دیوان مفتون سنگھ نے کافی سنی اور اس سے متاثر ہو کر انہوں نے دیوان فرید کی طباعت کی تحریک کی تو گویا دلنور نور پوری صاحب کی بات بھی سچ ثابت ہوگئی اور ملتان کے بزرگ نعت خواں حاجی اللہ دتہ ملتانی کی یہ بات بھی سچ ہو گئی کہ ایک گائیک بدرو ملتانی میں بھی انسانی اوصاف موجود تھے ‘ بزرگوں نے سچ کہا کہ بُرے کو بھی بُرا نہ کہو کہ ’’اُس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند‘‘۔ آخر میں یہی عرض کروں گا کہ خواجہ فرید کا ملتان سے تعلق نہایت اہم موضوع ہے اس پر تحقیق اور ریسر چ کی ضرورت ہے وہ سب سے اہم ذمہ داری بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی ہے کہ وہ اس بارے تحقیق اور ریسرچ کرے اور وسیب کے لوگوں کے سامنے نئے جہان اور نئے گوشے سامنے لائے ۔